اسرائیل نے غزہ میں زمینی آپریشن کا دائرہ وسیع کر دیا

تل ابیب (ڈیلی اردو/بی بی سی) جمعہ کی شام اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے غزہ میں شدید بمباری کے بعد اب اسرائیل نے کہا ہے کہ اس کی زمینی فوج ’آج رات اپنے آپریشنز کو وسعت دیں گی۔‘

اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہیگاری نے کہا ہے کہ ’گذشتہ چند گھنٹوں میں ہم نے غزہ میں حملوں میں اضافہ کیا ہے۔ فضائیہ نے زیرزمین ٹارگٹس اور دہشت گردوں کے انفراسٹرکچر کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا ہے۔ گذشتہ کئی گھنٹوں سے جاری اسی سرگرمی کے تسلسل میں اب زمینی افواج اپنی سرگرمیوں کو وسعت دیں گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل کی دفاعی افواج اپنے فوجی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ’تمام جہتوں میں طاقتور اور مؤثر طریقے سے کام کر رہی ہیں۔‘

زمینی آپریشن میں وسعت کی خبر دینے کے بعد فوج کے ترجمان نے غزہ کے شہریوں کو کہا ہے کہ شہر کی جنوب کی جانب نقل مکانی کر جائیں۔

اس سے قبل فوج کے ترجمان نے الزام عائد کیا کہ حماس غزہ میں موجود ہسپتالوں کو زیرزمین سرنگوں اور کمانڈ سینٹرز کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے، تاہم حماس نے اس کی تردید کی ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اس موقع پر خاص طور پر الشفا ہسپتال کا نام لیا اور کہا کہ اسے ’دہشت گردانہ کارروائیوں‘ کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔

اس اعلان سے قبل اشکلون میں موجود بی بی سی کی ٹیم نے رپورٹ دی تھی کہ وہ غزہ شہر میں بڑے دھماکوں کی شدید آوازیں سُن سکتے ہیں۔ بی بی سی ٹیم کے مطابق دھماکوں کی یہ آوازیں گذشتہ دنوں ہونے والی بمباری کی آوازوں سے زیادہ تھیں۔

دوسری جانب غزہ کی پٹی میں مقامی حکومت نے کہا ہے کہ علاقے میں انٹرنیٹ کی سروس معطل یعنی کاٹ دی گئی ہے۔ اس کی تصدیق انٹرنیٹ مانیٹرنگ سروس ’نیٹ بلاکس‘ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ایکس‘ پر پوسٹ کیا کہ غزہ میں ’کنیکٹیویٹی میں بہت حد تک کمی‘ ہوئی ہے۔

نمائندہ بی بی سی جیریمی بوون نے کہا ہے کہ آئندہ چند گھنٹوں میں کیا ہونے والا ہے اس کے بارے میں صرف اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک چیز واضح ہے اور وہ یہ کہ غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں میں شدت آ رہی ہے اور اس کے نتیجے میں مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہو گا۔

جیریمی کے مطابق اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ انٹیلیجنس کی بنیاد پر ٹارگٹس کو نشانہ بنا رہے ہیں مگر اگر وہ زمینی افواج کو بھی غزہ میں بھیج رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جاری جنگ کا ردہم بدل رہا ہے۔

بیت المقدس میں موجود نمائندہ بی بی سی ٹام بیٹمین کے غزہ میں انٹرنیٹ اور فون کی سروسز بظاہر ختم کر دی گئی ہیں۔ انٹرنیٹ اور فون سروسز کی معطلی کے بعد فلسطین ریڈ کراس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کا غزہ کی پٹی میں واقع اپنے آپریشنز سینٹرز سے ’رابطہ مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔‘

اسی طرح فلاحی تنظیم ’ایکشن ایڈ‘ نے بھی کہا ہے کہ ان کا غزہ میں موجودہ اپنے تمام اہلکاروں سے رابطہ ختم ہو گیا ہے۔ بی بی سی کے بہت سے نمائندگان نے بتایا ہے کہ ان کی جانب سے غزہ میں بھیجے گئے واٹس ایپ میسجز کا کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا ہے۔

کیا غزہ پر زمینی حملہ اپنے مقاصد کو پورا کر سکتا ہے؟ پال کربی کا تجزیہ

اسرائیل کے رہنما پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ حماس کا نام و نشان مٹا دیا جائے گا اور آئندہ غزہ میں صورتحال کبھی ویسی نہیں ہو گی جیسا کہ پہلے تھی۔

وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ’حماس کا ہر رکن ایک چلتی پھرتی لاش (ڈیڈ مین) ہے۔‘ انھوں نے حماس ’ٹیرر مشین‘ اور سیاسی ڈھانچے کو ختم کرنے کا عزم کا اعادہ بھی کیا تھا۔

اسرائیل نے غزہ میں اپنی زمینی کارروائیوں کو وسعت دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس زمینی آپریشن ’سورڈز آف آئرن‘ کا ہدف اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو اسرائیل کی فوج نے اس سے قبل سوچا تھا اور یہ وہ منصوبہ ہے جو آئندہ کئی ماہ تک جاری رہ سکتا ہے۔

لیکن کیا اس زمینی آپریشن کے مقاصد حقیقت پسندانہ ہیں اور کیا اسرائیل کے فوج یہ مقاصد حاصل کر پائے گی؟

غزہ میں زمینی افواج کے داخل ہونے کا مطلب گھر گھر لڑائی ہو گا اور اس صورت میں غزہ کی پٹی میں آباد 20 لاکھ سے زیادہ کی شہری آبادی کو بے پناہ خطرات لاحق ہوں گے۔ حماس کے زیرانتظام غزہ میں حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی فضائی بمباری میں اب تک 7000 سے زیادہ لوگ پہلے ہی مارے جا چکے ہیں اور سینکڑوں ہزاروں اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کر چکے ہیں۔

زمین پر آپریشن کے علاوہ اسرائیل کی ڈیفنس فورسزکے پاس ایک اضافی کام غزہ بھر میں نامعلوم مقامات پر قید 220 سے زائد مغویوں کو بچانا بھی ہے۔

اسرائیل کے عسکری تجزیہ کار امیر بار شالوم کہتے ہیں کہ ’میرا نہیں خیال کہ اسرائیل حماس کے ہر رکن کو ختم کر سکتا ہے، کیونکہ یہ انتہا پسند اسلام کا تصور ہے۔ لیکن آپ حماس کو زیادہ سے زیادہ کمزور کر سکتے ہیں اور اس کی آپریشنل صلاحیتوں کو ختم کر سکتے ہیں۔‘

شالوم کے مطابق حماس کو کمزور کرنا اسے مکمل طور پر ختم کرنے سے زیادہ حقیقت پسندانہ مقصد ہو سکتا ہے۔

اسرائیل ماضی میں حماس کے ساتھ چار جنگیں لڑ چکا ہے اور اس کے حماس کی جانب سے کیے جانے والے راکٹ حملوں کو روکنے کی ہر کوشش ناکام رہی ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’اس سب کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ حماس کے پاس اب اسرائیلی شہریوں کو دھمکی دینے یا قتل کرنے کی عسکری صلاحیت نہیں ہونی چاہیے۔‘

تل ابیب یونیورسٹی کے فلسطینی سٹڈیز فورم کے سربراہ مائیکل ملسٹین اس بات سے متفق ہیں کہ حماس کو تباہ کرنا انتہائی پیچیدہ ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ یقین کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا کہ آپ اُس خیال کو جڑ سے اکھاڑ پھینک سکتے ہیں جو حماس کی صورت میں موجود ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ حماس کے عسکری ونگ کے ممبران کی تعداد 25,000 سے زیادہ ہے جبکہ اس کے علاوہ 80 سے 90 ہزار ارکان وہ ہیں جو اس کے سماجی بہبود کے بنیادی ڈھانچے ’دعوۃ‘ کا حصہ ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اسرائیل کے وجود کے اگلے 75 سال اس جاری جنگ کے نتائج پر منحصر ہوں گے۔

زمینی حملہ خطرات سے بھرپور ہے

فوجی آپریشن کئی عوامل کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، ان میں وہ عوامل بھی شامل ہیں جو کسی بھی ایسے آپریشن کو پٹڑی سے اتار سکتے ہیں۔

حماس کا مسلح ونگ، القسام بریگیڈ، اسرائیلی حملے کے لیے تیار ہو گا۔ اسرائیلی فوجیوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے دھماکہ خیز مواد تیار ہو گا اور گھات لگا کر کارروائیاں کرنے کے منصوبے بھی موجود ہوں گے۔ حماس غزہ میں سرنگوں کے اپنے بدنام اور وسیع نیٹ ورک کو اسرائیلی افواج پر حملے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

سنہ 2014 میں اسرائیلی انفنٹری بٹالین کو ٹینک شکن بارودی سرنگوں، سنائپرز اور گھات لگا کر کیے جانے والے حملوں کے نتیجے میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

شاید یہی ایک وجہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے شمالی حصے سے آبادی کو انخلا کا کہا ہے۔

اسرائیلیوں کو ایک طویل جنگ کے لیے تیار رہنے کی تنبیہ کی گئی ہے جبکہ ریکارڈ 360,000 ریزرو فوجیوں کو ڈیوٹی پر بلایا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اسرائیل کب تک اپنی مہم جاری رکھ سکتا ہے کیوں کہ جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ غزہ میں ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، پانی، بجلی اور ایندھن کی منقطح سپلائی کے تناظر میں اقوام متحدہ کی جانب سے تباہی کے خطرے کے بارے میں خبردار کیا جا چکا ہے۔

اسرائیل میں سکیورٹی اور انٹیلیجنس معاملات پر رپورٹ کرنے والے صحافی یوسی میلمن کہتے ہیں کہ ’حکومت اور فوج کو لگتا ہے کہ انھیں بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل ہے، کم از کم مغربی ممالک کے رہنماؤں کی۔ حکومت کا فلسفہ یہ ہے کہ ’آئیے متحرک ہوں، ہمارے پاس کافی وقت ہے۔‘

تاہم ان کا خیال ہے کہ جلد یا بدیر اسرائیل کے مغربی اتحادی غزہ میں بھوکے مرتے لوگوں کی تصاویر دیکھیں گے تو وہ اس معاملے میں مداخلت کریں گے، عام شہریوں کی ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہونے سے دباؤ بھی بڑھے گا۔

ان کے مطابق ’یہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے کیونکہ اس کے لیے وقت درکار ہے اور امریکی انتظامیہ آپ کو ایک یا دو سال تک غزہ میں نہیں رہنے دے گی۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں