غزہ پر شدید اسرائیلی بمباری،تقریباً 9 ہزار ہلاکتیں

تل ابیب (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) جمعہ کی رات شدید اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں انٹرنیٹ اور فون سروسز منقطع ہوگئیں، جس سے تیئس لاکھ کے علاقے اور بیرونی دنیا میں زیادہ تر رابطے ٹوٹ گئے۔

اسرائیل کی فوج نے کہا کہ وہ محصور علاقے میں زمینی کارروائیوں کو پھیلا رہی ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی لڑائی میں جہاں اب تک دونوں جانب تقریباً 9 ہزار افراد ہلاک اور ہزاروں افراد زخمی اور دس لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں.

خبررساں ادارے “ایسو سی ایٹڈ پریس” کے مطابق اسرائیلی فوج کے اعلان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ غزہ پر مکمل حملے کے قریب پہنچ رہی ہے۔

اسرائیل نے تین ہفتے قبل ملک کے جنوبی حصے پر حماس کے خونریز حملے کے بعد حکمران عسکریت پسند گروپ کو کچلنے کا عزم کیا تھا۔

ففضائی حملوں کی بوچھاڑ سے ہونے والے دھماکوں نے جمعہ کی رات غزہ شہر پر آسمان کو جیسے روشن کر دیا جبکہ انٹرنیٹ، سیلولر اور لینڈ لائن سروسز کا بلیک آؤٹ ہو گیا۔

فلسطینی پہلے ہی ایک ہفتے قبل زیادہ تر بجلی منقطع ہونے کے بعد سےپہلے تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ تازہ ترین حملوں نے فلسطینیوں کو اب تنہا کر دیا۔ وہ گھروں اور پناہ گاہوں میں محصور ہو کر رہ گئے جبکہ ان کو خوراک اور پانی کی فراہمی ختم ہو نے کا سامنا ہے۔

اس سے قبل اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اسے غزہ میں جلد ہی ایک زمینی حملے کی توقع ہے جو طویل اور مشکل ہو گا اور اس کا مقصد علاقے کے عسکریت پسند حماس حکمرانوں کے زیر استعمال سینکڑوں کلو میٹر یا میلوں طویل سرنگوں کے اس نیٹ ورک کو تباہ کرنا ہے۔

یوو گیلنٹ نے جمعہ کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ اسرائیل غزہ میں ایندھن لے جانے کی اجازت اس لیے نہیں دے رہا کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ حماس اسے سرنگوں میں ہوا پمپ کرنے کے لیے درکار پاور جنریٹرز کو چلانے کے لیے استعمال کرے گا۔

اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلینٹ نے تل ابیب میں غیر ملکی نامہ نگاروں کے ایک چھوٹے سے گروپ سے اس کے بعد بات کی جب لڑاکا جیٹ طیاروں اور ڈرونز کی مدد کی حامل اسرائیلی فورسز نے غزہ میں دوسرا محدود زمینی حملہ کیا جب کہ وہ غزہ شہر کے مضافات میں کئی روز سے فضائی حملے کر رہا تھا۔

گیلینٹ نے کہا کہ زمینی حملہ جو کئی ہفتوں کے فضائی حملوں کے بعد ہوا، ایک لمبے عرصے پر محیط ہو گا اور یہ کہ اس کے بعد ایک کم تر شدت کی لڑائی کا ایک اور طویل مرحلہ انجام پائے گا جب اسرائیل مزاحمتی علاقوں کو تباہ کرے گا۔

سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کی ایک خونریز کارروائی کے جواب میں اسرائیل نے متعدد تباہ کن فضائی حملے کیے ہیں جن میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد پہلے ہی 7300 تک پہنچ گئی ہے۔ حماس کے اسرائیل پر حملے میں 1400 لوگ ہلاک ہوئے تھے جن کی اکثریت عام شہریوں پر مشتمل تھی۔ حماس کے پاس غزہ میں کم از کم 229 یرغمال موجود ہیں۔

اسی اثنا میں امریکی جنگی طیاروں نے مشرقی شام میں ان اہداف پر حملے کیے جن کے بارے میں پینٹگان نے کہا کہ وہ ایران کی پاسداران انقلاب سے منسلک تھے۔ پینٹگان کے مطابق یہ حملے امریکی فورسز پر حملوں کے ایک سلسلے اور مصر کے جزیرہ نما سینائی کے قصبو ں میں دو پر اسرار اشیا کے ٹکرانے کے بعد کیے گئے۔

غزہ میں عہدے داروں کے مطابق حالیہ لڑائی کے تین ہفتے بعد غزہ کی سخت ناکہ بندی سے خوراک، ایندھن، پانی اور ادویات کی رسد کم ہو رہی ہے اور اقوام متحدہ اور عرب راہنماؤں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد کی غزہ میں داخلے کے لیے جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔

غزہ کی وزارت صحت نے جمعرات کو ان ناموں اور شناختی نمبروں کی ایک تفصیلی فہرست جاری کی جس میں 3000 سے زیادہ بچے اور 1500 سے زیادہ خواتین شامل ہیں۔

اسرائیلی حکومت کے فلسطینی عسکریت پسندں نے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ فائر کیے ہیں جن میں جمعے کے روز کا ایک راکٹ حملہ بھی شامل ہے۔ یہ راکٹ جمعے کو تل ابیب کی ایک رہائشی عمارت سے ٹکرایا جس کے نتیجے میں چار لوگ زخمی ہو گئے۔

ہلاکتوں کی کل تعداد اسرائیل اور حماس کے درمیان تمام سابقہ چار جنگوں کی مجموعی تعداد سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔ ان جنگوں میں لگ بھگ 4000 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ ایک زمینی حملہ خدشہ ہے کہ دونوں جانب اموات کی تعداد میں مزید اضافہ کر دے گا، کیوں کہ اسرائیلی فورسز اور حماس گنجان آباد رہائشی علاقوں میں لڑائی کر رہے ہیں۔

فلسطینی علاقوں کےلیے اقوام متحدہ کی رابطہ کا ر لین ہیسٹنگز نے گیلنٹ کے بیانات پر کسی تبصرےسے انکار کرتے ہوئے کہا کہ، ہمیں نہیں معلوم کہ حماس کے پاس کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ ہم کئی عشروں سے اسرائیل کی حکومت کے تعاون سے غزہ میں ایندھن لا رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ایندھن سب سے زیادہ خطر ے میں ہے اور ہم اسرائیلیوں کے ساتھ یہ یقینی بنانے کے لیے کام کررہے ہیں کہ ہم اپنی کارروائیوں کے لیے جو کچھ استعمال کریں گے اسے محفوظ طریقے سے استعمال کیا جائے۔

اس تنازع نے خطے بھر میں ایک وسیع تر جنگ چھڑنے کا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔

امریکی وزیر دفاع لائڈ آسٹن نے کہا ہے کہ جمعے کے روز مشرقی شام میں کیے جانے والے حملے گزشتہ دس دن میں عراق اور شام میں امریکی عملےکے خلاف جاری انتہائی کامیاب حملوں کا جواب تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسرائیل حماس جنگ سے الگ ایک کارروائی تھی۔

جنرل اسمبلی میں قرارداد منظور

دریں اثنا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے غزہ میں ’انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) نے جمعہ کو دیر گئے ایک قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظور کیا، جس میں غزہ میں ‘فوری اور پائیدار جنگ بندی‘ کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ قرارداد عرب ممالک نے پیش کی تھی۔ ایک سو بیس ممالک نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔

اسرائیل کے اقوام متحدہ کے سفیر گیلاد اردن نے ووٹنگ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ جن لوگوں نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا وہ اسرائیل کی حمایت کرنے کی بجائے ‘نازی دہشت گردوں کے دفاع میں‘ کھڑے ہوئے۔

اسرائیلی سفیر کا مزید کہنا تھا، ”اس مضحکہ خیز قرارداد میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیل حماس کے خلاف اپنا دفاع کرنا چھوڑ دے تاکہ حماس ہمیں جلا کر رکھ دے۔‘‘

ادھر اقوام متحدہ میں فلسطینی ایلچی ریاض منصور نے ووٹنگ کے بعد صحافیوں کو بتایا، ”یہ ہر کسی کے لیے واضح پیغام ہے کہ اب بہت ہو چُکا ہے۔‘‘ منصور نے مزید کہا، ”یہ جنگ بند ہونی چاہیے، ہمارے لوگوں کے خلاف قتل عام کو روکنا ہو گا اور غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کا آغاز ہونا چاہیے۔‘‘

یو این جی اے میں رائے شماری میں اسرائیل اورامریکہ سمیت چودہ ممالک نے اس قراداد کی مخالفت کی۔ جبکہ جرمنی سمیت پینتالیس ممالک نے اس رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں