غزہ کے الشفا ہسپتال سے مریضوں سمیت سینکڑوں افراد کی نقل مکانی، خان یونس سے بھی اسرائیلی انخلا کا حکم

تل ابیب (ڈیلی اردو/بی بی سی) سنیچر کے روز غزہ سٹی کے مرکزی الشفا ہسپتال سے سینکڑوں افراد نے نقل مکانی کی ہے جن میں ہسپتال کے چند مریض بھی شامل ہیں۔ الشفا ہسپتال کے چند طبی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے انھیں وہاں سے نکل جانے کے لیے کہا گیا تھا لیکن اسرائیل نے اس کی تردید کی ہے۔

بہت سے لوگوں کوغزہ کی ملبے سے بھری سڑکوں سے نکلتے ہوئے دیکھا گیا ہے اس دوران گولیوں کے چلنے کی آوازیں بھی سنی گئی ہیں۔

دوسری جانب حماس کے زیر انتظام فلسطینی محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں دو دھماکوں میں 80 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

اسرائیلی حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ انھوں نے جبالیہ کے علاقے میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام چلنے والے الفخورہ سکول کو نشانہ بنایا ہے جو کہ ان دنوں پناہ گاہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

بی بی سی ویریفائی نے جبالیہ کے الفخورہ سکول کی جغرافیائی فوٹیج سے اس بارے میں پتا چلایا ہے۔ اس میں بہت سے لوگوں کو دیکھا جا سکتا ہے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ اس فوٹیج سے پتہ چلتا ہے کہ عمارت کے مختلف حصوں میں لوگ شدید زخمی حالت میں یا فرش پر بے حس و حرکت پڑے ہوئے ہیں۔

فوٹیج میں ایسی 20 سے زائد ہلاکتیں دکھائی دے رہی ہیں جبکہ ان میں سے نصف گراؤنڈ فلور کے ایک مخصوص کمرے میں نظر آرہی ہیں۔ فوٹیج میں کافی نقصان کے آثار بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) کے سربراہ فلپ لزارینی نے کہا کہ انھوں نے اپنی ایجنسی کے ایک سکول میں جس میں ’ہزاروں بے گھر افراد پناہ گزین ہیں‘ وہاں ’ہلاک اور زخمی ہونے والے سینکڑوں لوگوں کی خوفناک تصاویر اور فوٹیج‘ دیکھی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ حملے عام نہیں ہو سکتے۔ یہ حملے رکنے چاہیے۔‘

حماس کے زیرانتظام فلسطینی وزارت صحت نے کہا کہ اس کے علاوہ ایک دوسرے اسرائیلی حملے میں جبالیہ میں ایک ہی خاندان کے 30 سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں۔

اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے اس رپورٹ پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن کہا کہ وہ حماس کو نشانہ بنانے کے لیے جبالیہ سمیت غزہ میں اپنی کارروائیاں بڑھا رہی ہے۔

مرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ

حماس کے زیر انتظام فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد 12,300 تک پہنچ گئی ہے جبکہ ملبے تلے مزید 2000 افراد کے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی سربراہی میں اقوام متحدہ کی ایک مشترکہ ٹیم نے اسرائیلی فوج کے قبضے اور انخلا کے بعد الشفا ہسپتال کا دورہ کرنے کے بعد اسے ’ڈیتھ زون‘ قرار دیا ہے۔

ٹیم نے ایک گھنٹے تک ہسپتال کا جائزہ لیا اور کہا کہ انھوں نے گولہ باری اور فائرنگ کے شواہد دیکھے، اور ہسپتال کے داخلی دروازے پر ایک اجتماعی قبر کا مشاہدہ کیا۔

انھیں بتایا گیا کہ اس اجتماعی قبر میں 80 افراد دفن ہیں۔

اسرائیلی فوج کی طرف سے جاری کردہ انخلا کے احکامات کے بعد الشفا ہسپتال میں 300 شدید بیمار مریض رہ گئے ہیں۔ یہ غزہ کا سب سے بڑا اور جدید ترین ہسپتال تھا۔

ڈبلیو ایچ او کی ٹیم نے کہا کہ وہ بقیہ مریضوں اور عملے کو غزہ میں دیگر سہولیات تک فوری طور پر نکالنے کا بندوبست کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ہسپتال میں موجود ایک صحافی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہاں صرف ’ایسے مریض رہ گئے ہیں جو حرکت نہیں کر سکتے تھے اور وہاں ڈاکٹروں کی بہت کم تعداد‘ رہ گئی ہے۔

الشفا میں موجود صحافی قادر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہاں ہم اپنے ہاتھ اٹھائے اور سفید جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’گذشتہ رات بہت مشکل تھی۔ دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں خوفناک تھیں۔ بلڈوزر نے ہسپتال کے صحن میں بڑے بڑے سوراخ کر دیے اور کچھ عمارتوں کو مہندم کر دیا۔‘

اس سے قبل حماس کے زیرانتظام وزارت صحت نے کہا تھا کہ ہسپتال میں 120 مریض زیرعلاج ہیں جبکہ وہاں قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی غیر متعینہ تعداد بھی ہے۔

اسرائیلی فوج نے الشفا ہسپتال کو خالی کرنے کا حکم دینے کی تردید کی ہے اور کہا کہ اس نے ہسپتال کے ڈائریکٹر کی درخواست پر اتفاق کیا ہے کہ وہ ’محفوظ راستے‘ سے وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں۔

ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’کسی بھی موقع پر اسرائیلی فوج نے مریضوں یا طبی ٹیموں کے انخلا کا حکم نہیں دیا اور درحقیقت یہ تجویز کیا کہ طبی انخلا کی کسی بھی درخواست کو اسرائیلی فوج کی طرف سے سہولت فراہم کی جائے گی۔‘

ہسپتال کے ایک ڈاکٹر رمیز رضوان نے کہا کہ انھیں اسرائیلی حکام کی طرف سے الشفا ہسپتال چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ انھوں نے ہسپتال کی صورت حال کو ’افسوسناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کوئی درد کش ادویات یا اینٹی بائیوٹکس نہیں ہیں اور کچھ مریضوں کے ’زخموں سے کیڑے نکل رہے ہیں۔‘

اسرائیل کی فوج نے حالیہ دنوں میں ہسپتال پر چھاپہ مارا ہے اور اسے وہ ’حماس کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن‘ کہتے ہیں۔ لیکن ابھی تک اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا گیا ہے کہ اس گروپ نے ہسپتال کے سائے میں کوئی بڑا آپریشن کیا تھا۔

خان یونس سے بھی انخلا کا حکم

اسرائیل نے شمالی غزہ میں فلسطینی شہریوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے وہاں سے نکل جائیں اور اب جنوبی شہر خان یونس میں بھی لوگوں سے کہا جا رہا کہ وہ وہاں سے نکل جائیں۔

واضح رہے کہ ہزاروں لوگ شمالی غزہ سے نقل مکانی کر کے خان یونس پہنچے تھے لیکن اب انھیں وہاں سے بھی نکلنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔

ہمارے نمائندے اولیور سلو کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے خان یونس میں رہنے والے فلسطینیوں سے اپنے گھر بار چھوڑنے کے لیے کہا ہے۔ خان یونس جنوبی غزہ کا سب سے بڑا شہر ہے اور اس شہر میں شمال سے بھاگ کر آنے والے لاکھوں پناہ گزین موجود ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ نئے حکم سے یہ پتا چلتا ہے کہ اب اسرائیلی کارروائی غزہ کے جنوبی علاقے کی طرف بھی ہونے والی ہے۔

سنیچر کو خان یونس کی ایک رہائشی عمارت میں اسرائیلی میزائل سے حملہ کیا گیا تھا جس میں محکمہ صحت کے مقامی اہلکار کے مطابق 26 افراد ہلاک ہو گئے۔ اسرائیل نے ابھی تک اس میزائل حملے کے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

لیکن وہ خان یونس کے وسیع علاقوں میں پرچے گرا رہی ہے جس میں لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ پناہ حاصل کرنے کے لیے وہاں سے نکل جائیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے مشیر مارک ریجیو نے جمعے کو امریکی نیوز نیٹ ورک ایم ایس این بی سی کو بتایا کہ ’ہم لوگوں سے نقل مکانی کے لیے کہہ رہے ہیں۔ ہمیں پتا ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کے لیے یہ آسان نہیں ہے، لیکن ہم عام شہریوں کو کراس فائرنگ میں پھنستے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔‘

سات اکتوبر سے جب سے اسرائیل نے مکمل ناکہ بندی نافذ کی ہوئی ہے ديگر فلسطینی علاقوں کی طرح غزہ پٹی کے دیگر مقامات اور جنوبی غزہ بھی انسانی بحران کی لپیٹ میں ہے۔

وہاں پانی، خوراک اور ایندھن کی قلت کے ساتھ ساتھ صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات اور صفائی ستھرائی کے حالات کے بارے میں بڑے پیمانے پر خدشات پائے جاتے ہیں اور ان اس بارے میں رپورٹس سامنے آئی ہیں۔

اسرائیل نے غزہ پٹی کے زیادہ تر حصے پر تقریباً مسلسل فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے شمالی غزہ میں زمینی دراندازی بھی کی ہے۔ بمباری اور زمینی دراندازی کے نتیجے میں غزہ شہر کے زیادہ تر حصے اور انکلیو ملبے کے ڈھیر میں بدل گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ غزہ میں کم از کم 15 لاکھ لوگ اندرونی طور پر بے گھر ہوئے ہیں اور ایک جگہ پر بہت زیادہ لوگوں کا ہونا اپنے آپ میں بڑی تشویش کی بات ہے۔ بہت سے لوگ اقوام متحدہ کی سہولیات کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں، گرجا گھروں اور عوامی عمارتوں میں پناہ لے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے میں تل ابیب حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ جنگجو 240 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ہمراہ غزہ کی پٹی لے گئے تھے۔

حماس کے زیرِ کنٹرول غزہ کی وزارتِ صحت کے حکام کے مطابق اسرائیلی فورسز کی فضائی و زمینی کارروائیوں میں جمعےتک ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 12 ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے جن میں پانچ ہزار سے زیادہ بچے شامل ہیں۔

حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی جانب سے اعلانِ جنگ کیا گیا جس کے بعد غزہ کی پٹی میں فضائی اور پھر زمینی کارروائی شروع کی گئی۔ اسرائیلی فورسز نے پہلے غزہ کے شمالی علاقوں میں زمینی کارروائی کی اور اب حملوں کا ہدف جنوبی علاقے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں