’لاپتہ بلوچ طلبہ کو واپس لائیں ورنہ وزیراعظم عدالت پیش ہوں‘

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں کے حوالے سے ایک مقدمے کی سماعت کی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ سات دن میں بلوچ طلبہ کو بازیاب کرائیں ورنہ وزیراعظم اگلی سماعت عدالت پیش ہوں۔

سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی کا مزید کہنا تھا کہ ”یہ کام ایگزیکٹیو کا تھا لیکن کر عدالت رہی ہے، کیا ہم یہ معاملہ اقوام متحدہ کو بھیجیں اور اپنے ملک کی بے عزتی کروائیں۔ اس ملک کی اس سے بڑھ کر اور کیا توہین ہو گی کہ لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں۔”

خیال رہے کمیشن نے فروری میں اپنی رپورٹ پیش کی تھی جس کے مطابق 55 بلوچ طلبہ لاپتہ ہیں۔ تقریباً نو ماہ گزرنے اور اکیس سماعتوں کے باوجود طلبہ کی بازیابی یا اس سلسلے میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہو سکی۔

اس سے پہلے 11 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے حکومت کو ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے کمیشن کی فائنڈنگز کے مطابق عملی اقدامات اٹھانے کی ہدایات کی تھیں۔

کمیشن کب اور کیسے قائم ہوا؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بلوچ طلبہ کے لاپتہ ہونے سے متعلق ایڈووکیٹ ایمان مزاری کی پٹیشن پر گذشتہ برس 28 اپریل کو کمیشن تشکیل دیا تھا۔

اس وقت قائد اعظم یونیورسٹی کے لاپتہ طالب علم حفیظ بلوچ کی بازیابی اور بلوچ طلبا کو مختلف یونیورسٹیوں میں مبینہ طور پر ہراساں کرنے سے روکنے کی درخواست زیر سماعت تھی۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ایمان مزاری نے بتایا، ”ابتداء میں کمیشن کے کنوینئر چئیرمن سینٹ صادق سنجرانی تھے۔ تاہم کئی ماہ تک غیر فعال رہنے کے بعد انہوں نے عدالت سے خود کو علیحدہ کرنے کی استدعا کی جس کے بعد عدالت نے کمیشن کی سربراہی سابق وزیرِ اعلی بلوچستان اختر مینگل کے سپرد کی تھی جس کے ممبران میں افراسیاب خٹک، اسد عمر، رضا ربانی، کامران مرتضی، مشاہد حسین سید اور چند دیگر شامل تھے۔”

اگرچہ کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی لیکن ملکی اور غیر ملکی میڈیا تک اس کی فائنڈنگز لیک ہوئیں ہیں۔

وائس آف امریکہ کے مطابق پانچ سو صفحات پر مشتمل کمیشن رپورٹ میں ذکر کیا گیا، ”سیکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے تردید کے باوجود اس بات کے زبانی اور تحریری شواہد ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور خفیہ ایجنسیاں بلوچ طلبہ کو لاپتا کرنے میں ملوث ہیں۔‘‘

کمیشن کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ بلوچ طلبہ کی نسلی پروفائلنگ، ہراسمنٹ اور جبری گمشدگیاں اس انداز میں کی گئی کہ بعض طلبہ کو حراست میں رکھا گیا یا انہیں گرفتار یا اغوا کیا گیا۔

’لگتا ہے تعلیمی اداروں میں نہیں حراستی مراکز میں ہیں‘

پنجاب یونیورسٹی سے بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے ترجمان نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ”مسلسل نگرانی، نسلی بنیادوں پر پروفائیلنگ اور غیر یقینی صورتحال سے بلوچ طلبہ کو ایسا لگتا ہے وہ تعلیمی اداروں میں نہیں حراستی مراکز میں ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ”سب ایک طرح کے نہیں لیکن بیشتر عملے کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ بیبگر امداد بلوچ کو خود پنجاب یونیورسٹی کے سکیورٹی گارڈز نامعلوم افراد کے ہمراہ گھسیٹ رہے ہیں، اس کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ یہ گذشتہ برس کا واقعہ ہے لیکن ہمیشہ کے لیے ہمارے دماغوں پر نقش ہو کر رہ گیا۔ اپنے لباس اور حلیے کی وجہ سے دن میں دس بار کارڈ چیک کروانا پڑتا ہے۔ ہماری آپس کی شاید ہی کوئی میٹنگ ہو جس میں لاپتہ بلوچ طلبہ کا ذکر نہ آئے۔ ہم ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ان کا کیا بنے گا؟ سب کے پاس سوالات ہیں جواب کسی کے پاس نہیں۔”

کیا نگران وزیراعظم اور دیگر ذمہ داران کی عدالت طلبی سے پیش رفت ہو سکے گی؟

سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا، ”آج اکیسویں سماعت پر بھی ہم اسی جگہ پر کھڑے ہیں۔ کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔”

بلوچ طلبہ کی گمشدگیوں کے حوالے سے قائم کمیشن کے سربراہ اختر مینگل نے اس حوالے سے ایکس پر لکھا، ”اسلام آباد ہائی کورٹ کا وزیراعظم اور دیگر ذمہ داران کو طلب کرنے کا حکم بلوچ عوام کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کی عدلیہ کو بلوچستان کے عوام کو انصاف دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔”

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر کہتے ہیں، ”جبری گمشدگیوں کے مقدمات میں اس سے پہلے بھی وزرائے اعظم پیش ہوئے اس سے کیا فرق پڑا؟ اچھی بات یہ ہے کہ عدالت کو اس معاملے پر تشویش ہے۔ اسلام آباد کی طرف سے بلوچوں کی جبری گمشدگیوں پر تشویش کی ایک علامتی اہمیت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن جب تک ریاست کے طاقتور ادارے تیار نہ ہوں عملی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔”

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات پروپیگنڈا یا انسانی حقوق کو درپیش سنگین چیلنچ؟

گذشتہ ماہ برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے دعوی کیا تھا، ”اقوام متحدہ کی ذیلی کمیٹی کے اندازوں کے مطابق بلوچستان میں 50 افراد جبری لاپتا ہیں۔ جبکہ بعض اوقات ہمیں شکایات موصول ہوتی ہیں، جس میں وہ ہمیں 5 ہزار نام بتاتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ یہ لاپتا ہیں۔”

ان کا کہنا تھا، ”اس مسئلے (جبری گمشدگیوں) کو ریاست کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔”

اقوام متحدہ کی اس ذیلی کمیٹی کا نام Committee on Enforced Disappearances ہے جو جبری گمشدگیوں کے واقعات کا ریکارڈ رکھتی اور شہریوں کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔ اس کمیٹی کی ویب سائٹ وزیراعظم کے دعوے کی ترید کرتی ہے۔

کمیٹی کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق مئی 2022 سے مئی 2023 کے دوران پاکستان سے جبری گمشدگیوں کے ایک ہزار چھ سو پینتیس واقعات رپورٹ ہوئے۔

دوسری طرف پاکستان کا سرکاری سطح پر قائم لاپتہ افراد کمیشن بھی وزیراعظم کے دعوے کی ترید کرتا ہے۔ اگست میں شائع ہونے والی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اب تک محض بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے ستائیس سو سے زائد واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے زینب مزاری نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ”اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھ کر کیا حقیقت سے آنکھیں چرائی جا سکتی ہیں؟ سب جانتے ہیں کہ سیاسی کارکنان، طلبہ اور مخالفین کو بے دھڑک غائب کر دیا جاتا ہے۔ کیا اس پر بات کرنا پروپیگنڈا ہے؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست کے کرتا دھرتا جبری گمشدگی جیسے سنگین انسانی المیے کو کتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں