تربت میں مبینہ مقابلہ: عدالتی حکم کے باوجود سی ٹی ڈی کیخلاف مقدمہ درج نہ ہو سکا

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) صوبہ بلوچستان کے علاقے تربت میں کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے مبینہ مقابلے میں چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان کے لواحقین کا دعویٰ ہے کہ مارے جانے والے جبری طور پر گمشدہ افراد تھے۔ عدالت نے سی ٹی ڈی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ تاہم لواحقین کے دھرنے کے باوجود مقدمہ درج نہیں ہو سکا ہے۔

سی ٹی ڈی کے مبینہ مقابلے میں ہلاک ہونے والے بالاچ کے لواحقین چار روز سے لاش سمیت دھرنا دیے ہوئے۔ عدالت نے اتوار کو سی ٹی ڈی کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کا حکم دیا تھا البتہ پیر کو آخری اطلاعات تک ان احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوا تھا۔

بالاچ کے بڑے بھائی اجمل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 29 اکتوبر کو رات ایک بجے سیاہ کپڑوں میں ملبوس 20 سے 25 مسلح افراد دیوار گود کر ہمارے گھر میں داخل ہوئے۔ کمرے کا دروازہ توڑا اور میرے بھائی بالاچ کو ساتھ لے گئے۔

اجمل کے بقول “جب میرے بھائی بالاچ کو لے جایا جا رہا تھا تو والدہ بے ہوش ہوگئی تھیں۔ ان مسلح افراد نے ہمیں کہا کہ خاموش رہو اور شور نہ کرو۔ ہم ڈر کی وجہ سے خاموش رہے۔”

بالاچ کے بھائی کے مطابق ایک ماہ تک غائب رہنے کے بعد بالاچ کی گرفتاری اس وقت ظاہر کی گئی جب 20 نومبر کو سی ٹی ڈی نے پانچ کلو دھماکہ خیز مواد رکھنے کے الزام میں ایف آئی آر میں اسے نامزد کیا۔

بالاچ کے اہلِ خانہ کو ان کی گرفتاری ظاہر کرنے سے متعلق پیش رفت سے ایک نامعلوم نمبر سے آنے والے فون کے ذریعے پتا چلا۔

بالاچ کی گرفتاری ظاہر کیے جانے کے ایک دن بعد انہیں 21 نومبر کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے بالاچ کو 10 روزہ ریمانڈ پر سی ٹی ڈی کے حوالے کر دیا۔

بالاچ کے بھائی اجمل کہتے ہیں کہ “ہم خوش تھے کہ کم از کم ہمارا بھائی منظر عام پر تو آگیا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ عدالت میں سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے خوف کی وجہ سے ہماری زیادہ بات نہیں ہوسکی۔

ان کے بقول ’’ہمیں کیا پتا تھا کہ اگلے روز بالاچ جعلی مقابلے میں مار دیا جائے گیا۔‘‘

بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم “وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز” نے سی ٹی ڈی پر ماورائے عدالت قتل کا الزام لگایا ہے۔

واضح رہے کہ 22 اور 23 نومبر کی درمیانی شب سی ٹی ڈی کے مبینہ مقابلے میں چار افراد مارے گئے تھے۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق مارے جانے والے چاروں افراد کی شناخت لاپتا افراد میں شامل لوگوں میں ہوئی ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس ان چاروں افراد کی معلومات پہلے سے موجود تھیں۔ البتہ بلوچستان کا محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔

سی ٹی ڈی کے مبینہ مقابلے میں مارے جانے والے افراد کی شناخت بالاچ مولا بخش، سیف اللہ، ودود اور شکور کے نام سے کی گئی تھی۔

بالاچ حوالے سے ان کے عزیزوں کا کہنا ہے کہ وہ پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا جن کی عمر لگ بھگ 20 سال تھی۔ وہ درزی کی دکان پر کام کرتے تھے۔

بلوچستان کے جبری طور پر گمشدہ افراد کے حوالے سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز یہ دعویٰ کرتی ہے کہ صوبے میں لگ بھگ آٹھ ہزار بلوچ جبری طور پر غائب کیے گئے ہیں۔البتہ حکومت ان اعداد و شمار کو درست تسلیم نہیں کرتی۔

بالاچ کے اہلِ خانہ، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتیں گزشتہ چار روز سے تربت کے شہید فدا چوک پر بالاچ کی لاش کے ہمراہ دھرنا دیے ہوئے ہیں۔

ان کا مطالبہ ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے جب کہ سی ٹی ڈی کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

اتوار کو سیشن جج نے پولیس کو سی ٹی ڈی کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ مظاہرین کے مطابق ایف آئی آر کا اندراج تاحال نہیں ہوا ہے۔ دوسری جانب بالاچ کی لاش کی تدفین بھی ابھی تک نہیں کی گئی ہے۔

بالاچ کے وکیل جادان دشتی کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی نے ان کا جسمانی ریمانڈ لے لیا تھا۔ اس کے باوجود ان کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ یہ عدلیہ کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔

بلوچستان بار کونسل نے بھی 23 نومبر عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ مسلسل احتجاج کے بعد جج نے جسٹس آف پیس کے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے پولیس کو سی ٹی ڈی کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کرنے کا حکم دیا۔

یورپی یونین کی رواں ماہ ہی سامنے آنے والی جی ایس پی پلس رپورٹ میں پاکستان میں بڑھتے ہوئے جبری گمشدگیوں کے کیسز پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ (ایچ آر سی پی)نے بھی ایک بیان میں بلوچستان میں سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ماورائے عدالت قتل کی مذمت کی ہے اور واضح کیا ہے کہ کسی بھی شخص کی جان کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جنرل سیکریٹری سمی دین نے کہا کہ اگر لوگوں پر الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ جرم ثابت کیا جائے۔ لوگوں کو اٹھا کر غائب کرنا اور پھر مسخ شدہ لاشیں پھینکنا یا پھر جعلی مقابلوں میں لوگوں کو مارنے سے سے نفرت بڑھے گی۔

گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ نے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو گمشدہ بلوچ طلبہ کے کیس پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ البتہ نگراں وزیرِ اعظم نے بیرونِ ملک دورے پر ہونے کے سبب پیشی سے معذرت کی ہے۔ عدالت نے 29 نومبر کو نگراں وزیرِ اعظم کو عدالت طلب کیا ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جنرل سیکرٹری سمی دین نے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کے بیان سے متعلق کہا کہ حکمرانوں کو عدالتوں کا خیال تک نہیں۔ اسی وجہ سے وہ مسنگ پرسنز کے مسئلہ کو اہمیت نہیں دیتے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کی رہنما اور سابقہ رکن اسمبلی شکیلہ نوید دہوار کہتی ہیں کہ ان کی جماعت 400 سے زائد لاپتا افراد کو بازیاب کرانے میں کامیاب رہی۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب ایک بچہ اپنی ماہ کے ساتھ سڑکوں پر والد کی بازیابی کے لیے جدو جہد کرتے ہوئے بڑا ہوگا تو اس کے دل میں ریاست کے لیے محبت کیسے ہوگی؟

بی این پی بلوچ لاپتا افراد کے مسئلے کے حل کے لیے زور دیتی رہی ہے۔ 2018 میں عام انتخابات کے بعد جب عمران خان کی وفاقی حکومت قائم ہوئی تو بلوچستان نیشنل پارٹی نے چھ نکات کے تحت ان کی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا۔ ان نکات میں سے ایک نقطہ لاپتا افراد کی بازیابی بھی تھا۔

شکیلہ نوید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تربت میں اس وقت بھی خواتین اور بچے احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کے مطالبات مانے جائیں اور سی ٹی ڈی کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج اور واقعے کی جوڈیشل تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا جائے۔

بلوچستان بار کونسل کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین ایڈووکیٹ راہب خان بلیدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ماورائے عدالت قتل کے واقعات سے عدلیہ پر سوالات اٹھیں گے۔ کمیشن تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرے تاکہ واقعے کے حقائق سامنے لائے جا سکیں۔

دوسری جانب محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ بالاچ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا رکن تھا۔

سی ٹی ڈی کے مطابق بالاچ نے دورانِ تفتیش اعتراف کیا کہ وہ ٹارگٹ کلنگ اور آئی ای ڈی (بم) نصب کر چکا ہے۔وہ بارودی مواد اپنے دیگر ساتھیوں کے پاس لے کر جا رہا تھا جنہوں نے موٹر سائیکل آئی ای ڈی پہلے سے تیار کر رکھی تھی اور تربت شہر میں دہشت گردی کی کارروائی کرنا چاہتے تھے۔

بیان میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ بالاچ کے انکشاف پر سی ٹی ڈی نے چھاپہ مار ٹیم تشکیل دی۔ وقوعے پر پہنچتے ہی دہشت گردوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ بالاچ دہشت گردوں کی فائرنگ سے مارا گیا۔

بیان کے مطابق جب فائرنگ کا سلسلہ تھما تو چھاپہ مار ٹیم نے تلاشی لی۔ وہاں تین دیگر دہشت گردوں کی لاشیں بھی ملیں جن میں سے دو کی جیب میں شناختی کارڈ ہونے سے ان کی شناخت عبدالودود اور مبارک کے نام سے ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں