سرینگر میں ہندو طالبعلم کیخلاف توہین مذہب کا مقدمہ، کشیدگی بڑھانے میں’سوشل میڈیا کا بھی کردار ہے‘: پولیس

سرینگر (ڈیلی اردو/بی بی سی) انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے ہندو طالب علم نے ایک متنازع ویڈیو شیئر کی جس کے بعد کیمپس میں کشیدگی پھیل گئی۔ پولیس نے مقدمہ درج کر کے سخت وارننگ جاری کی ہے۔

سرینگر کی این آئی ٹی میں کشمیری اور غیر کشمیری طلبہ کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے پہلی بار تعلیمی سرگرمیاں متاثر نہیں ہوئیں۔ 2016 میں یہ کشیدگی ٹی20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں انڈیا کی ہار پر کشمیری طلبہ کے جشن کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ اس بار یہ تنازع کرکٹ نہیں بلکہ مذہبی جذبات سے متعلق ہے۔

این آئی ٹی کیمپس میں منگل کی صبح کشمیری مسلمان طلبہ نے مظاہرے کیے اور مہاراشٹر کے رہنے والے ہندو طالب علم پراتھمیش شِنڈے کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔

ہندو طالبعلم کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

شِنڈے پر الزم ہے کہ انھوں نے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخانہ مواد والی ایک ویڈیو انسٹاگرام پر شیئر کی تھی۔ یہ ویڈیو دراصل فلسطین کے عسکری گروپ حماس کے ایک رہنما کے بیٹے مصحاب حسن یوسف کی ہے جس میں انھوں نے پیغمبر اسلام پر کچھ الزامات عائد کیے ہیں۔

پولیس نے شِنڈے کے خلاف مقدمہ تو درج کر لیا تاہم وہ پہلے ہی کیمپس چھوڑ کر واپس مہاراشٹر پہنچ گئے ہیں۔ تین روز سے شدید تناوٴ کے درمیان حکومت نے نہ صرف این آئی ٹی بلکہ سبھی کالجوں میں سرمائی چُھٹی کا اعلان کیا ہے۔

جموں کشمیر پولیس کے سربراہ رشمی رنجن سوین نے جمعرات کو جاری ایک بیان میں کہا: ’مذہبی جذبات کو بھڑکانے کی اجازت کسی کو نہیں دی جاسکتی۔ ایسے واقعات کو وطن دشمن عناصر ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘

انھوں نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران اُردو میں بولتے ہوئے زور دے کر کہا کہ ’پولیس حضرت محمد کے تقدس سے متعلق حساس ہے ، اور اس بارے میں کسی کو بھی گستاخی سے روکنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔‘

تاہم یہ پوچھنے پر کہ کیا شِنڈے کو گرفتار کیا جائے گا، انھوں نے کہا کہ قانون ضابطے کے مطابق اپنا کام کرے گا۔

گو حالات پر قابو پالیا گیا ہے تاہم این آئی ٹی کے علاوہ بعض دوسرے کالجوں میں بھی طلبہ نے مظاہروں کی کوشش کی تو سبھی کالجوں میں سرمائی چھٹیوں کا اعلان کیا گیا۔

ایک اعلیٰ پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’دونوں جانب سے حالات کو بگاڑنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ اس میں سوشل میڈیا کا بھی رول ہے، لیکن ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں بھائی چارہ اور امن کو خراب کرنے کی خفیہ کوششیں کامیاب نہ ہوں۔‘

ایکس سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اب بھی ایسی پوسٹیں شیئر کی جا رہی ہے جس میں مذکورہ ویڈیو موجود ہے اور اس کے باعث حالات دوبارہ کشیدہ ہونے کا خدشہ موجود ہے۔

ماضی میں این آئی ٹی میں تصادم

مارچ 2016 میں ٹی 20 کرکٹ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں انڈیا کو ویسٹ انڈیز نے ہرایا تو این آئی ٹی کیمپس میں کشمیری طالب علموں نے آتش بازی کی اور انڈین ٹیم خلاف نعرے بلند کیے۔

اس رویہ پر کیمپس میں موجود غیرکشمیری طالب علموں نے احتجاج کیا تو دونوں گروپوں کے درمیان تشدد بھڑک اُٹھا۔ اُسوقت این آئی ٹی میں زیرتعلیم جاوید احمد نے بتایا کہ ’دوسرے دن غیرکشمیری سٹوڈنٹس کی بڑی تعداد نے کیمپس میں مظاہرے کیے اور توڑ پھوڑ کی تو پولیس نے لاٹھی چارج کیا تو حالات مزید بگڑ گئے۔‘

یہ تنازعہ اس قدر شدید تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے قومی سلامتی کے مشیر اور وزیرداخلہ کے ساتھ نئی دلی میں ہنگامی میٹنگ کے دوران جائزہ لیا۔ غیرکشمیری طلبہ کے ساتھ حکومت نے مذاکرات کے کئی ادوار کیے جن کے دوران مطالبہ کیا گیا کہ کیمپس کے اندر کشمیر پولیس کی بجائے نیم فوجی دستے تعینات کئے جائیں اور امتحانات اور پرچوں کی جانچ کا مکمل اختیار غیرمقامی اساتذہ کو دیا جائے۔

سوشل میڈیا اور انڈیا کی ٹی وی چینلیز پر اس معاملے کو کافی طول دیا گیا۔ یہاں تک کہ جموں کشمیر پولیس نے انڈیا کی مختلف ریاستوں کے طلبہ کا ایک جلوس جموں کشمیر کی سرحد پر روک دیا، تاہم جلوس میں شامل طلبہ نے انڈیا کا قومی پرچم پولیس کو دیا اور کہا کہ اسے این آئی ٹی کے کیمپس میں لہرانے کا وعدہ کریں تو وہ واپس جائیں گے۔

اس تنازعے کے دوران مقامی پولیس کو بھی ہدف تنقید بنایا گیا تھا اور اس پر الزام تھا کہ وہ جانبدار ہے۔ یہاں تک کہ اُسوقت کے ایک سینئیر پولیس افسر مبشر لطیفی مشتعل ہوکر کہا تھا: ’’جموں کشمیر پولیس کو کسی سے قوم پرستی کی سرٹیفیکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے، ہم جانتے ہیں جو یہ بات کررہے ہیں اُن کی بہادری فون کے کی پیڈ سے باہر نہیں چلتی۔‘‘

حالانکہ غیرکشمیری طالب علموں کی تعداد بہت زیادہ تھی لیکن پھر بھی ایک ہزار کے قریب طلبہ کشمیر چھوڑ کر اپنے گھروں کو جاچکے تھے۔

تاہم مئی میں سبھی طلبہ واپس آگئے اور کلاس ورک بحال ہوگیا، لیکن صرف دو ماہ بعد حزب المجاہدین کے مسلح کمانڈر برہانی کی جھڑپ میں ہلاکت کے بعد کشمیر میں پرتشدد احتجاج کی لہر چھِڑ گئی اور کئی ماہ تک عام زندگی ٹھپ ہوکر رہ گئی تھی۔

این آئی ٹی میں کشمیریوں کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟
1960 میں پورے انڈیا میں انجینیئرنگ کالجز کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا تو کشمیر میں بھی ’ریجنل انجینیئرنگ کالج‘ یا آر ای سی قائم کیا گیا۔ لیکن اس میں داخلے کے لیے کشمیر کی انتظامیہ امتحان منعقد کرتی تھی۔

جاوید احمد کہتے ہیں کہ ’اُسوقت ملک کے دوسرے انجینیئرنگ کالجوں کی طرح یہاں بھی مقامی طلبہ کے لیے 50 فیصد سیٹیں تھیں اور باقی پچاس فی صد انڈیا اور دوسرے ملکوں کے طالب علموں کے لیے۔ یہاں تو فلسطین، عراق، سوڈان یہاں تک کہ پاکستان کے طلبہ بھی ہوتے تھے۔ لیکن کبھی کوئی مسلہ نہیں ہوا۔‘

2004 میں آر ای سی کو حکومت ہند کی وزارت تعلیم نے براہ راست اپنی نگرانی میں لے کر اس کا نام این آئی ٹی رکھ دیا۔

پورے انڈیا کے طلبہ کے لیے پچاس فیصد سیٹیں مخصوص رکھی گئیں جبکہ باقی پچاس فی صد ہندواکثریتی جموں، بودھ اکثریتی لداخ اور مسلم اکثریتی کشمیر کے بیچ تقسیم ہوگئیں۔

انڈیا کی مختلف ریاستوں کے غیر کشمیری طلبا کی بڑی تعداد فی الوقت کالج میں زیرتعلیم ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں