ملالہ یوسفزئی کا افغانستان میں طالبان کے صنفی امتیاز کو انسانیت کیخلاف جرم قرار دینے کا مطالبہ

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) ’میرے تو سر میں لگنے والی گولی نے دنیا کو میری حمایت میں لا کھڑا کیا۔ مگر اب ایسا کیا ہو کے دنیا افغان لڑکیوں اور عورتوں کا ساتھ دینے کے لیے اسی طرح سے اٹھ کھڑی ہو؟‘

نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے اس سوال کی گونج جوہانسبرگ کے جوبرگ تھیٹر میں پانچ دسمبر کو منعقدہ 21ویں نیلسن منڈیلا سالانہ لیکچر کے دوران سنائی دی۔

انھوں نے اپنی تقریر میں افغان لڑکیوں اور عورتوں سے متعلق طالبان کی پالیسیوں اور قوانین کا موازنہ گذشتہ صدی کے دوران جنوبی افریقہ پر قابض نسل پرست سفید فام حکومت کی پالیسیوں اور قوانین سے کیا۔

ملالہ فنڈ کے شریک بانی اور ملالہ کے والد ضیا الدین یوسفزئی نے بی بی سی اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملالہ اور تقریب کے شرکا کا پیغام یہ تھا کہ افغانستان میں رائج نظام انسانی حقوق کے خلاف، صنفی امتیاز پر مبنی اور خطرناک ہے۔

یہ سالانہ لیکچر دینے والوں میں اب تک کی سب سے کم عمر مقرر، ملالہ کا کہنا تھا کہ جیسے جنوبی افریقہ میں سیاہ فام لوگوں کو نسلی امتیاز کا نشانہ بنایا گیا تھا ویسے ہی افغانستان میں طالبان حکومت لڑکیوں اور عورتوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھ کر ’جینڈر اپارتھائڈ‘ کی مرتکب ہو رہی ہے۔

نسلی امتیاز اور صنفی امتیاز میں مماثلت

نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ میں ’ریشیئل اپارتھائڈ‘ یعنی نسلی امتیاز کے خلاف طویل جد و جہد کی تھی، اور اپنی عمر کا بڑا حصہ جیل کی سلاخوں کے پچھے گزارا تھا۔

ساؤتھ افریقہ کی سفید فام نسل پرست حکومت نے وہاں کی سیاہ فام اکثریت کا استحصال کرنے کی غرض سے مختلف طرح کے قوانین اور پالییسیاں بنا رکھی تھیں۔ جس کے ردعمل میں عالمی برادری نے وہاں کی حکومت کا حقہ پانی بند یعنی مکمل بائیکاٹ کر دیا تھا۔ بالآخر جنوبی افریقہ سے نسلی امتیاز کا خاتمہ ہو گیا۔

اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کونسل کے لیے اس سال جون میں مرتب کی گئی رپورٹ میں افغان خواتین اور لڑکیوں کی حالت کو عالمی سطح پر بد ترین قرار دیا گیا تھا۔

رپورٹ کے ایک مصنف، رچرڈ بینٹ، کے مطابق ’افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں سے جس قسم کا امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے وہ صنفی ایذا رسانی کے – جو انسانیت کے خلاف جرم ہے – زمرے میں آ سکتا ہے، اور جسے صنفی امتیاز قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ وہاں حکام بظاہر ایک امتیازی نظام کے تحت جان بوجھ کرعورتوں اور لڑکیوں کو اپنا تابع بنانا چاہتے ہیں۔

جینڈر اپارتھائڈ یا صنفی امتیاز (جسے جنسی امتیاز بھی کہا جاتا ہے) سے مراد صنف یا جنس کی بنیاد پر کسی سے امتیاز برتنا ہے۔ اس کے لیے ایک ایسا نظام تشکیل دیا جاتا ہے جو افراد کو جسمانی یا قانونی طریقوں سے دوسروں کا ماتحت بنا دیتا ہے۔

ملالہ نے غزہ جنگ کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی دیکھنا چاہتی ہیں اور بچوں کو سکول اور اپنی معمول کی زندگیوں میں واپس آنے کے قابل بنانا چاہتی ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم جنگوں کو دیکھتے ہیں، خاص طور پر غزہ میں ہونے والی اسرائیلی فوج کی بمباری، اس جنگ کی وجہ سے غزہ میں بچے عام زندگی سے دور ہو کر رہ گئے ہیں۔

لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں طالبان کے اندر اختلاف

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ تمام طالبان افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے گھر سے نکلنے اور ملازمت کرنے پر عائد پابندیوں کی حمایت نہیں کرتے۔

گذشتہ دنوں افغانستان کی سابق وزیرِ تعلیم رنگینہ حمیدی نے برطانوی اخبار گارڈین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے میں طالبان کی صفوں میں موجود اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی برادری ایسے حکام کو لڑکیوں کی تعلیم کے دروازے پھر سے کھولنے پر آمادہ کر سکتی ہے۔

مگر ضیا الدین یوسفزئی اس تجویز سے اتفاق نہیں کرتے، ’آپ ان لوگوں سے بات کرتے ہیں جن میں گنجائش ہو۔ کئی تنظیموں اور لوگوں نے انھیں انگیج کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ ناکام ہو گئے ہیں۔‘

اپنے موقف کی وضاحت میں انھوں نے کہا کہ ’آپ ایک ایسے شخص سے کیسے روابط قائم کر سکتے ہیں جو یہ کہے کہ پانی پینا انسانی صحت کے لیے ضروری ہے یا نہیں۔ اس سوال پر تو بحث ہو ہی نہیں سکتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں طالبان کا محاسبہ کریں کیونکہ یہ 20 ملین (دو کروڑ) خواتین کے حقوق کا سوال ہے۔

طالبان دور حکومت میں افغان لڑکیاں اور خواتین

اس وقت افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں گیارہ برس سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی ہے۔ طالبان نے سرکاری اور نجی شعبے کی اکثر ملازمتوں میں خواتین کے کام کرنے اور ان کے عوامی مقامات پر جانے پر بھی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔

اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے، یونیسکو، کے مطابق ستمبر 2021 میں جب طالبان نے 12 سال اور اس سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کی سکول میں واپسی کو مؤخر کرنے کا اعلان کیا تو تقریباً 11 لاکھ لڑکیوں کی رسمی تعلیم تک رسائی ختم ہو گئی۔ اس وقت سکول جانے کی عمر کو پہنچ جانے والی 80 فیصد یعنی 25 لاکھ لڑکیاں اور نوجوان عورتیں تعلیمی اداروں سے باہر ہیں اور افغانستان کی تقریباً 30 فیصد لڑکیاں کبھی پرائمری سکول ہی نہیں گئی ہیں۔

یونیسکو کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال دسمبر میں لڑکیوں کے یونیورسٹی جانے پر تا حکمِ ثانی پابندی کی وجہ سے ایک لاکھ سے زیادہ طالبات متاثر ہوئیں۔

ادارے کے مطابق افغانستان میں 2001 سے 2018 تک اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں خواتین کی تعداد میں 20 گنا اضافہ ہوا تھا، اور حالیہ پابندیاں لگنے سے پہلے ہر تین نوجوان عورتوں میں سے ایک کسی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھی۔

اس برس ستمبر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں کئی مندوبین نے افغان لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی گھر سے باہر سرگرمیوں پر عائد پابندیوں کو قابل افسوس قرار دیا تھا۔

پابندیوں کا جواز اور اس کا ردِ جواز

طالبان کا موقف ہے کہ بالغ اور نا محرم لڑکیوں اور لڑکوں یا مردوں اور عورت کا ایک دوسرے ملنا شرعی قوانین اور افغان ثقافت کے خلاف ہے، اس لیے مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اور علیحدہ تعلیمی اداروں کے لیے ان کے پاس فی الحال وسائل نہیں ہیں۔

ملالہ نے اپنی تقریر میں اس موقف کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’لڑکیوں اور عورتوں کے حقوق پر پابندیاں لگانے کی خاطر انھوں نے اپنے غلط تصور کی بنیاد پر 80 سے زیادہ فرمان اور فتوے جاری کیے ہیں ۔۔۔ طالبان نے لڑکی ہونے کو غیر قانونی بنا دیا ہے۔‘

بہت سے مسلم سکالر اور علما بھی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کو صحیح نہیں سمجھتے۔ اس برس اپریل میں افغانستان کے تین جید علما نے لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنے پر تنقید کی تھی۔

مولانا عبدالسمیع الغزنوی، مولانا توریالے ہمت اور مولانا عبدالرحمان عابد نے الگ الگ مواقع پر لڑکیوں کے حصول تعلیم کو جائز قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ پردے کی پابندی کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔

ضیا الدین یوسفزئی پوچھتے ہیں کہ دنیا کے پچاس سے زیادہ مسلم ملکوں میں سوائے افغانستان کے کون سا ایسا ملک ہے جہاں لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے۔ انھوں نے کہا کے طالبان کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب وہ اقتدار میں نہیں ہوتے تو سکولوں کو بموں سے اڑاتے ہیں اور جب اقتدار میں آ جاتے ہیں تو لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دیتے ہیں۔

انھوں نے تشویش ظاہر کی کہ اگر طالبان کے خواتین دشمن اقدامات کو نہ روکا گیا تو، بقول ان کے، اس ’طالبانی نظام‘ کے اثرات پڑوسی ملکوں پر بھی مرتب ہوں گے، جیسا کہ 90 کی دہائی میں خواتین کے بارے میں طالبان کی پالیسیوں کے سنگین اثرات نائن الیون کے بعد پاکستان کے سرحدی اور قبائلی اضلاع میں نظر آئے تھے۔

ملالہ فنڈ کا افغانستان اور پاکستان میں کردار

ضیا الدین یوسفزی نے بتایا کہ 2016 اور اگست 2021 کے درمیان ملالہ فنڈ نے افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے 50 لاکھ ڈالر سے زیادہ کی امداد دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کابل پر طالبان کا قبضہ ہونے تک ملالہ فنڈ افغانستان میں 10 مقامی تنظیموں کے ساتھ کام کرتا تھا اور اب بھی کر رہا ہے۔ مگر اب یہ تنظیمیں آنلائن ایجوکیشن کے پروجیکٹس پر کام کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملالہ فنڈ کے نقطۂ نظر سے افغانستان، نائجیریا اور پاکستان زیادہ اہم ہیں کیونکہ ان ملکوں میں لڑکیوں کی شرح خواندگی سب سے کم ہے۔

پاکستان میں ملالہ فنڈ 18 مقامی تنظیموں کے ساتھ کام کر رہا ہے اوراب تک 15 ملین ڈالر خرچ کر چکا ہے۔

اس وقت کئی دیگر بڑے عالمی مسائل کی وجہ سے افغانستان بین الاقوامی برادری کی نظروں سے جیسے اوجھل ہو گیا ہے، اور عالمی طاقتوں کی اس سے اگر کوئی ترجیح وابستہ بھی ہے تو وہ سکیورٹی اور معیشت تک محدود ہے۔

ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ ’’مجھے ہے حکمِ اذاں لا الہ الا اللہ‘ کے مصداق اپنی صدا بلند کرنے میں مصروف ہیں۔۔۔ میں ہر ملک میں ہر حکومت سے کہتی ہوں کہ وہ صنفی امتیاز کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دے۔‘

انسانیت کے خلاف جرائم کے خلاف روم سٹیچیوٹ آف دی انٹرنیشنل کرِمنل کورٹ کی شِق 7 کے تحت کوئی بھی ملک قانون سازی کر سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ صنفی امتیاز کو اگر انسانیت کے خلاف جرم قرار دے بھی دیا جائے تو کیا اس کے ڈر سے طالبان حکومت لڑکیوں کی تعلیم اور حقوق نسواں کے بارے میں اپنی روش بدل لے گی؟ یا پھر ان کی صفوں میں اس معاملے میں ہم خیال طالبان کو ڈھونڈ کر ان سے ڈائیلاگ زیادہ مؤثر رہے گا؟

اپنا تبصرہ بھیجیں