جرمنی: ‘دہشت گردی’ کے الزام میں عراقی باشندہ ملک بدر

برلن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) 20 سالہ نوجوان پر مشرقی جرمنی میں کرسمس مارکیٹ پر “دہشت گردانہ حملے” کی منصوبہ بندی کا شبہ تھا۔ اس عراقی شخص کے جرمنی میں دوبارہ داخلے پر بھی مستقل پابندی لگا دی گئی ہے۔

جرمنی کی وزارت داخلہ نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ ایک 20 سالہ عراقی کو اس کے آبائی ملک واپس بھیج دیا گیا ہے۔ جرمن حکام کو شبہ تھا کہ وہ کرسمس مارکیٹس پر ’’دہشت گردانہ حملے‘‘ کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔

جرمن ریاست سیکسنی کی وزارت داخلہ نے نامعلوم شخص پر ”سنگین تشدد کی کارروائی‘‘ کی منصوبہ بندی کا الزام لگاتے ہوءے اسے ملک بدر کیا اور جرمنی میں داخلے پر ہمیشہ کے لیے پابندی بھی عائد کر دی۔

جرمن حکام کے مطابق مشتبہ شخص سیکسنی انہالٹ میں رہتا تھا لیکن وہ لوئر سیکسنی میں کام کرتا تھا۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ پولیس کو مشتبہ شخص کے بارے میں ایک اطلاع موصول ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ کرسمس کے بازار میں ”شدید حملے‘‘ کا منصوبہ بنا رہا تھا۔

اس شخص کو 21 نومبر کو لوئر سیکسنی سے گرفتار کیا گیا تھا۔

وزارت نے کہا کہ ملک بدری کا حکم ”وفاقی جمہوریہ جرمنی کی سلامتی کو لاحق کسی خاص خطرے یا دہشت گردی کے خطرے کی روک تھام‘‘ کے پیش نظر دیا گیا ہے۔

تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا اس حوالے سے کوئی شواہد ملے ہیں کہ اس شخص کی جانب سے دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

جرمنی ‘دہشت گردی’ کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوشاں

غزہ میں جاری تنازعے کے پس منظر میں سامیت دشمن عناصر اور اسلامو فوبیا میں عالمی سطح پر اضافے کے تناظر میں جرمن حکام حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے حملوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کی وجہ سے چوکنا ہیں۔

جرمنی کے وفاقی دفتر برائے تحفظ آئین (بی ایف وی) نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ جرمن سر زمین پر مسلم انتہا پسندوں کی جانب سے دہشت گردی کے خطرات نمایاں ہیں۔

ایجنسی نے کہا کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گرادنہ حملے کے بعد مغرب مجموعی طور پر دہشت گردی کے خطرے سے دوچار ہے۔

جرمنی میں عرب نژاد تارکین وطن اکثر ایسے حملوں کے مرکزی مشتبہ افرادہوتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں