تحقیقاتی صحافت میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کیسے کام آ سکتی ہے؟

واشنگٹن (ڈیلی اردو) امریکی اخبار ‘نیویارک ٹائمز’ نے جب غزہ پر اسرائیل کی بمباری کو رپورٹ کیا تو سامنے آنے والے نتائج کو مزید تقویت دینے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔

اخبار کے صحافیوں نے آرٹیفیشل انٹیلی جینس (اے آئی) یعنی مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا تاکہ سیٹلائٹ تصاویر کو ٹریک کیا جا سکے جس میں گنجان آباد شہری علاقوں میں 200 سے زیادہ گڑھے دکھائے گئے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر 907 کلو گرام بموں کی وجہ سے ہوئے۔

‘نیو یارک ٹائمز’ کی جانب سے اے آئی کا استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ کیسے ٹیکنالوجی بڑے ڈیٹا کو تیزی اور درست طریقے سے چھانٹی کرنے میں میڈیا کی مدد کر سکتی ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ چھوٹے نیوز رومز جو تحقیقاتی کام کرنے کے قابل ہیں ان کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔

یونیورسٹی آف میزوری کے اسکول آف جرنلزم میں ایمرجنگ ٹیکنالوجی کے ماہر جیرڈ شروڈر کہتے ہیں کہ اتنے بڑے سیٹلائٹ ڈیٹا کو جانچنے اور الگ کرنے کے لیے صحافیوں کی ایک پوری فوج درکار ہوتی، لیکن آرٹیفیشل انٹیلی جینس نے صحافیوں کا کام آسان کیا۔

ان کے بقول یہ اس نوعیت کی رپورٹنگ اے آئی کے بغیر تقریباً ناممکن ہے۔ انسانوں کے لیے یہ بہت مشکل ہو گا کہ وہ سیٹلائٹ تصاویر میں سے بموں کے گڑھوں کو شمار کر سکیں اور وہ بھی اتنے مستند طریقے سے۔ لہٰذا اے آئی ہی تقریباً اس رپورٹ کو ممکن بناتی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ تحقیقاتی صحافت کے لیے بہت سے مالی وسائل درکار ہوتے ہیں، لہذٰا یہ ایک مہنگا کام ہے۔ لیکن ایسے وقت میں جب میڈیا کی صنعت مالی مشکلات سے دوچار ہے، آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا استعمال تحقیقاتی صحافیوں کو کم لاگت والا راستہ فراہم کر رہا ہے۔

اگرچہ ٹیکنالوجی کا استعمال صحافت میں طویل عرصے سے ہو رہا ہے لیکن اوپن اے آئی کے چیٹ بوٹ ‘چیٹ جی پی ٹی’ کی آمد نے مصنوعی ذہانت کے پیش کردہ امکانات پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی کے اسکول آف جرنلزم میں ڈیٹا جرنلزم کے ایک پروفیسر جوناتھن سوما کہتے ہیں کہ اس طرح کے منصوبے برسوں سے بنائے جا رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک منصوبہ 2018 میں یوکرین میں سامنے آیا تھا، یہ ایک ٹیکسٹ بک کا کیس تھا کہ کیسے بڑی تعداد میں سیٹلائٹ ڈیٹا کے تجزیے کے لیے مشین لرننگ اور اے آئی کو استعمال کیا جائے۔

اس تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا کہ دسیوں ہزاروں یوکرینی کروڑوں ڈالر مالیت کے امبر کی غیر قانونی کان کنی کر رہے تھے۔

جوناتھن سوما کا کہنا تھا کہ یہ اتنا پیچیدہ کام تھا کہ تمام تیکنیکی معاملات کو سمجھنے کے لیے کئی سیشن پر مشتمل کورس ہوئے۔ لیکن آج کل میں لوگوں کو یہ کام 10 یا 15 منٹ میں سکھا دیتا ہوں۔

ماہرین کے مطابق اے آئی کی مدد سے تحقیقاتی صحافت کا سب سے مشہور کیس شاید 2016 کا پاناما پیپرز کیس ہے جس میں رپورٹرز نے 2.6 ٹیرابائٹس کی لیک ہونے والی معلومات کی جانچ کی۔

سائنس نیوز ویب سائٹ ‘لائیو سائنس’ نے حساب لگایا کہ لیک ہونے والی معلومات 65 کروڑ صفحات کے برابر ہوں گی۔

نیوز ویب سائٹ ایکسی اوس کے گلوبل ٹیکنالوجی نمائندے ریان ہیتھ کہتے ہیں کہ جب ہم پاناما پیپرز جیسی کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں تو یہ واقعی مصنوعی ذہانت کی ایک تیکنیک کے ذریعے سامنا آتا ہے جسے ویکٹر ڈیٹا بیس کہا جاتا ہے۔

اے آئی کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نیوز ادارے اور صحافی پاناما پیپرز کے ڈیٹا کو منظم اور استعمال کرنے کے قابل ہو گئے تاکہ دنیا کے چند امیر لوگوں کے ٹیکسوں سے بچنے، فراڈ کرنے اور حکومتی پابندیوں سے بچنے کے لیے بنائے گئے آف شور اکاؤنٹس اور ٹیکس شیلٹر کو بے نقاب کیا جاسکے۔

ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ جدید مصنوعی ذہانت چھوٹے نیوز اداروں کے لیے برابری کے مواقع پیدا کرسکتی ہے۔

وی او اے سے بات کرنے والے کچھ میڈیا ماہرین کا کہنا تھا کہ چند سال قبل تک تحقیقاتی صحافت زیادہ تر نیوز اداروں کے لیے بہت مہنگی اور وقت طلب ہوتی تھیں۔

لیکن بی بی سی اور یاہو سمیت جرنلزم اور ٹیکنالوجی میں کام کرنے والے ڈیوڈ کاسویل کہتے ہیں سب کچھ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔

ایک اے آئی ماہر ڈیوڈ کاسویل اس وقت آکسفرڈ، برطانیہ میں قائم رائٹرز انسٹی ٹیوٹ فار اسٹڈی آف جرنلزم میں کام کر رہے ہیں۔ وہ نیوزروم میں کام کرنے والوں کو یہ تربیت دے رہے ہیں کہ اے آئی کو ان کے اداروں میں کیسے شامل کیا جائے۔

کاسویل کا کہنا تھا کہ ڈیٹا جرنلزم کے لیے اے آئی کے استعمال سے ڈیٹا جرنلزم تک رسائی کا اثر بہت وسیع ہو گا جیسے چھوٹے اخباروں یا دیہی علاقے جو پہلی مرتبہ ڈیٹا جرنلزم کے قابل ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم یہ ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو بہت سارے اور بے ترتیب دستاویزات کا تجزیہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔

کاسویل نے کہا کہ مثال کے طور پر اے آئی کے لینگوئج ماڈلز کے ذریعے ان ہزاروں پولیس رپورٹس سے بھی معلومات لی جا سکیں گی جو اس انداز میں لکھی جاتی ہیں جو اس سے پہلے بطور ڈیٹا استعمال نہیں ہو پاتی تھیں۔

تاہم ترقی کے باوجود سوما جیسے ماہرِ تعلیم کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کبھی بھی صحافیوں کی جگہ نہیں لے گی۔

ان کے بقول ایک اچھے صحافی کی بنیاد صحافت کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اے آئی صرف تھوڑا سا اضافی جادو ہے جسے آپ روایتی صحافت کی صلاحیتوں پر چھڑک سکتے ہیں۔

اگرچہ بعض مبصرین یہ سوال کرتے ہیں کہ آیا اے آئی صحافت کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گی۔ لیکن زیادہ تر اس پر متفق ہیں کہ مصنوعی ذہانت کبھی بھی رپورٹر کے کردار کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کرے گی بلکہ یہ اس کے کردار کو بڑھانے میں مدد گار ہو سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں