شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے امریکی اہداف پر دوبارہ حملے

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/وی او اے) ایران کی پشت پناہی کی حامل ملیشیائیں ایک بار پھر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ہدف بنا رہی ہیں۔ انہوں نے امریکہ کی جانب سے اس بمباری کے بعد سے، جس کا مقصد ان گروپوں کی خطرہ لاحق کرنے والی صلاحیت کو متاثرکرنا تھا، امریکی اہداف پر کم از کم تین حملے کیے ہیں۔

امریکی فوجی عہدے داروں نے وی او اے کو بتایا کہ تازہ ترین حملہ پیر کی صبح ہوا جب مشرقی شام میں امریکی اور اتحادی فورسز کےمشن سپورٹ سائٹ یوفریٹس، کے اڈے پر ایک راکٹ داغا گیا۔ عہدے دار نے بتایا کہ اس حملے میں کوئی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔

لیکن اس سے قبل اتوار کے روز دیر الزور میں عمر آئل فیلڈ کےایک اڈے پر امریکی حمایت یافتہ شامی ڈیمو کریٹک فورسز ( ایس ڈی ایف ) کو ہدف بنا کر کیے گئے ڈرون حملے میں ایس ڈی ایف کے متعدد ارکان ہلاک ہوئے۔ ایس ڈی ایف کے ترجمان فرھاد شامی نے سوشل میڈیا پر کہا کہ اس ڈرون حملے میں ایس ڈی ایف کے چھ جنگجو ہلاک ہوئے۔

ایس ڈی ایف کا اڈہ گرین ولیج کے طور پر معروف امریکی چوکی کے قریب واقع ہے ۔

امریکہ نے جمعے کے روز بھی ایرانی پشت پناہی والی ملیشیاؤں کے ایک حملے کی تصدیق کی، جب متعدد راکٹوں نے مشن سپورٹ سائٹ یوفریٹس کے اڈے کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں کسی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی رپورٹ نہیں ملی۔

یہ تین تازہ ترین حملے امریکہ کی جانب سے جمعے کی رات عراق اور شام میں سات مقامات پر 85 اہداف کو نشانہ بنا کر کیے گئے فضائی حملوں کے اس سلسلے کے بعدپہلی بار کیے گئے ہیں جن میں لگ بھگ آدھے گھنٹے میں 125 سے زیادہ حملے کیے گئے۔

امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ جمعے کے روز کے حملوں کا مقصد ملیشیاؤں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹرز ، ڈرون اور میزائل رکھنے کے مقامات اور دوسری اہم تنصیبات سمیت ان کی سپلائی چین کے انتہائی اہم اہداف کو نشانہ بنا کر ان کی لاجسٹکس کی صلاحیتوں کو متاثر کرنا تھا ۔ واشنگٹن مزید حملوں کے بارے میں بھی انتباہ کر چکا ہے ۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے اتوار کو سی این این کے اسٹیٹ آف دی یونین پروگرام میں کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن ہر وہ اقدام کریں گے جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کربی نے ایران کے اندر حملوں کو خارج از امکان قرار دینے سے انکار کیا۔

جمعے کے حملوں کے بعد وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جان کربی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ،” ہم اضافی اقدام کریں گے۔ ان سب کا مقصد ان (ملیشیاؤں) کےحملوں کو ختم کرنا ہو گا۔”

ایرانی عہدے داروں نے امریکی حملوں کو شام اور عراق کے اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی کہتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کےترجمان نصرکنعانی نے امریکی حملوں کو ایک سنگین اسٹریٹجک غلطی قرار دیا۔

امریکی عہدے داروں نے ابھی تک یہ معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا ہے کہ جمعے کے حملوں میں ملیشیاؤں کے کتنے ارکان ہلاک ہوئے تھے، لیکن شامی حزب اختلاف کے سر گرم کارکنوں نے کہا ہے کہ شام میں کم از کم 29 جنگجو ہلاک ہوئے جب کہ عراقی عہدے داروں نے کہا کہ ملیشیا کے کم از کم 16 ارکان ہلاک اور 36 زخمی ہوئے۔

ایران کی پشت پناہی کی حامل ملیشیاؤں کی جانب سے شام پر نئے حملے ایسے میں ہوئے ہیں جب ایران کی پشت پناہی کے حامل یمن میں حوثی باغی امریکہ اور برطانیہ کی زیر قیادت ایک بین الاقوامی اتحاد کی جانب سے ہفتے کو فضائی حملو ں کے ایک نئے سلسلے کے باوجود بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں بین الاقوامی جہاز رانی کے لیےمسلسل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

امریکی فوج نے کہا ہے کہ اس نے اتوار کی رات یمن میں حوثی عسکریت پسندوں کے کنٹرول کے ایک علاقے میں کروز میزائلو ں کے خلاف ایک حملہ اپنے دفاع میں کیا تھا۔

امریکی سنٹر ل کمانڈ، سینٹکام نے، جو علاقے میں امریکی فورسز کی نگرانی کرتی ہے، کہا ہے کہ حملہ ان چار اینٹی شپ میزائلوں پر کیا گیا جو بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملہ کرنے کے لیے تیار تھے۔

سینٹکام نے کہا کہ اس نے اتوار کے روز ایک الگ واقعے میں حوثیوں کے کروز میزائل کے ایک زمینی حملے کے خلاف بھی سیلف ڈیفینس حملے کیے۔

اتوار کو حفظ ما تقدم کے طور پر یہ حملے اس کے بعد کیے گئے جب امریکہ اور برطانیہ نے ہفتے کو یمن میں حوثیوں کے کم از کم 36 اہداف کو نشانہ بنایا۔

حوثیوں نے کہا ہے کہ وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ایک حوثی عہدے دار محمد ال بخیتی نے ایکس پر لکھا، اسرائیل کے خلاف کارروائیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک غزہ میں نسل کشی کے جرائم روک نہیں دیے جاتے اور اس کے رہائشیوں کی ناکہ بندی ختم نہیں کر دی جاتی، خواہ اس کے لیے ہمیں کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔

وائٹ ہاؤس نے عراق اور شام میں ملیشیاؤں اور یمن کے حوثیوں، دونوں کے لیے اپنے نقطہ نظر کا دفاع کیا ہے۔ حوثیوں کو حال ہی میں ایک دہشت گر د گروپ قرار دیا گیا ہے۔

اتوار کے رواز وائٹ ہاؤس کے ترجمان سلیون نے کہا،” ہماری جانب سے کیا جانے والا ہر حملہ، خطے میں ایرانی پشت پناہی کی حامل ملیشیاؤں کی صلاحیتوں کو متاثر کرنے میں مدد کرتا ہے۔ امریکہ پر جب بھی حملہ ہو گا وہ آگے بڑھے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ یقینی بنایا جائے کہ اسے مشرق وسطیٰ میں کسی جنگ میں نہ گھسیٹا جائے۔ “

اپنا تبصرہ بھیجیں