وائٹ ہاؤس : سیاہ فام مذہبی رہنماؤں کا امریکی صدر بائیڈن سے غزہ جنگ بند کرانے کا مطالبہ

واشنگٹن (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) امریکہ کے ایک ہزار سے زائد سیاہ فام مذہبی رہنماؤں کے اتحاد نے صدر جو بائیڈن سے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ مطالبہ منگل کو وائٹ ہاؤس میں ‘بلیک ہسٹری منتھ’ کی تقریب کے دوران کیا گیا جس میں صدر بائیڈن بھی شریک تھے۔

تقریب میں شریک سیاہ فام رہنماؤں نے وائس آف امریکہ کو اس سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا۔

یہ مطالبہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب غزہ میں چار ماہ سے جاری جنگ سے فلسطینیوں کو شدید انسانی بحران کا سامنا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اس وقت مشرقِ وسطیٰ کے رہنماؤں سے ملاقاتوں میں عارضی جنگ بندی کے معاہدے پر سفارتی کوشش کر رہے ہیں۔

جنگ بندی کے مطالبے کے خط پر دستخط کرنے والے چرچوں کے رہنماؤں میں شامل ریورنڈ ٹموتھی میکڈونلڈ سوم نے بتایا کہ یہ مہم کارکنوں کی مذہبی اجتماعات میں شرکت سے شروع ہوئی۔

غزہ کی صورتِ حال پر متحرک ہونے والے کارکنوں کے حوالے سے ’افریقی امریکن منسٹرز لیڈرشپ کونسل‘ کے بانی اور اٹلانٹا و جارجیا میں ’فرسٹ آئیکونیم بپٹسٹ چرچ‘ کے پادری میکڈونلڈ نے کہا ہے کہ ان کارکنوں نے ہمیں بیان دینے کے لیے قائل کیا۔

میکڈونلڈ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ عقائد کے رہنما ہوتے ہوئے ہم اس صورتِ حال کے بارے میں کچھ نہیں کر رہے۔

اُن کے بقول امریکہ میں 1960 کی دہائی کی شہری حقوق کی تحریک کی طرح چرچ سے منسلک نوجوانوں کی طرف سے محسوس ہونے والے مسئلے پر پریشانی اور غصہ تیزی سے مذہبی اراکین میں پھیل گیا۔

کمیونٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سیاہ فام امریکی جو فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں، وہ تنازع کو نسلی انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کا یہ اظہار ایک ایسے اقلیتی گروپ کی جانب سے یکجہتی کے طور پر ہے جو جانتا ہے کہ مظلوم، بے گھر اور محروم ہونا کیسا محسوس ہوتا ہے۔

ایک اور تنظیم ’ڈیموکریسی ان کلر‘ کے بانی اسٹیو فلپس نے اس ضمن میں سیاہ فام لوگوں کے حقوق کے مشہور رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی 1967 کی ’خاموشی توڑنے کا وقت‘ نامی تقریر کی طرف اشارہ کیا۔

اس تقریر میں مارٹن لوتھر کنگ نے ویتنام جنگ میں امریکی شمولیت کو اخلاقی طور پر نا انصافی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ اس نے امریکیوں کی توجہ اندرونی نسل پرستی اور غربت کے مسائل سے ہٹا دی ہے۔

فلپس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس طرح کے لمحے میں بہت زیادہ گونج اور مماثلت ہے۔

بین الاقوامی اور اندرونی طور پر امریکی معاشرے کے دباؤ کے جواب میں صدر جو بائیڈن نے فلسطینیوں کے لیے زیادہ ہمدردانہ لہجہ اپنایا ہے۔

انہوں نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ صدمے، موت اور تباہی کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ اس درد اور جذبے کو سمجھتے ہیں جو امریکہ اور دنیا بھر میں بہت سے لوگ محسوس کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ امریکی انتظامیہ کا یہ مؤقف رہا ہے کہ مستقل جنگ بندی کا فائدہ صرف حماس کو ہو گا۔

واشنگٹن اس وقت ایک ایسے معاہدے پر کام رہا ہے جو حماس کی تحویل میں موجود اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی اور اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے لڑائی کو عارضی طور پر روک دے۔

وائٹ ہاؤس میں تقریب سےخطاب کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے بلیک ہسٹری اور ری پبلکن قانون سازوں کی طرف سے نسلی مسائل پر تعلیم کو محدود کرنے کی کوششوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آج اس بات پر غور کریں کہ ہم تاریخ کیسے بناتے ہیں، نہ کہ تاریخ کو مٹائیں۔

ادھر مشرقِ وسطیٰ میں موجود امریکہ کے اعلیٰ ترین سفارت کار اینٹنی بلنکن نے سعودی، قطری اور مصری رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں اور وہ اسرائیل حکام سے بھی عارضی جنگ بندی کے اس مجوزہ معاہدے پر بات چیت کریں گے۔

دریں اثنا امریکی کانگریس میں اس بل کے پاس ہونے کو رکاوٹوں کا سامنا ہے جس کے تحت امریکہ کی اسرائیل کے لیے امداد بھی شامل ہے۔

امریکی ایوانِ نمائندگان نے منگل کو ری پبلکن کے زیرِ قیادت ایک بل کو مسترد کیا جو اسرائیل کو 17.6 ارب ڈالر فراہم کرے گا۔

برسرِ اقتدار ڈیموکریٹس کا کہنا تھا کہ وہ اس کے بجائے ایک وسیع پیمانے پر ووٹ چاہتے ہیں جو یوکرین کو امداد بین الاقوامی انسانی امداد اور نئے سرحدی حفاظت کے لیے رقم فراہم کرے گا۔

بل کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت تھی۔ ووٹ زیادہ تر پارٹی خطوط پر تھا حالاں کہ 14 ری پبلکن ارکان نے بل کی مخالفت کی جب کہ 46 ڈیموکریٹس نے اس کی حمایت کی۔

مخالفین نے ایوان کی اس قانون سازی کو ری پبلکنز کی طرف سے 118 ارب ڈالر کے سینیٹ کے اس بل کی مخالفت سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک سیاسی چال قرار دیا ہے جس میں امریکی امیگریشن پالیسی کی بحالی اور سرحدی سلامتی کے لیے نئی فنڈنگ کے ساتھ یوکرین، اسرائیل اور انڈو پیسیفک خطے میں شراکت داروں کے لیے اربوں ڈالر کی ہنگامی امداد شامل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں