خفیہ ایجنسیوں اور جاسوس یونٹس پر مشتمل اسرائیل کا پیچیدہ انٹیلی جنس نظام کیسے کام کرتا ہے؟

لندن + تل ابیب (ڈیلی اردو/بی بی سی) حماس کے 7 اکتوبر کے حملے سے کچھ ہفتوں بعد اسرائیل کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل پر خبر نشر کی گئی تھی کہ غزہ کی سرحد کی نگرانی کرنے والا اسرائیلی فوج کا انٹیلیجنس یونٹ حملے والے دن فعال نہیں تھا۔

خبر کے مطابق دو برسوں قبل یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس یونٹ میں کام کرنے والے اہلکاروں کی تعداد کو کم کیا جائے گا اور اُن سے چھٹی والے دن اور رات کے اوقات میں کام نہیں لیا جائے گا۔

یہ درجنوں خبروں میں سے ایک خبر تھی جو حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی سکیورٹی اور انٹیلیجنس نظام میں ممکنہ خرابیوں کے حوالے سے نشر کی گئی تھی۔

اسرائیل پر حملوں کے بعد تقریباً ہر اسرائیلی شہری یہ سوال پوچھتا ہوا نظر آیا کہ ملک کو کسی بھی حملے سے بچانے کے لیے بنایا گیا 70 برس پرانا سکیورٹی اور انٹیلیجنس نظام کیسے پلک جھپکتے ہی منہدم ہو گیا؟

یہ سوالات بھی اٹھائے گئے کہ غزہ کی سرحد کی نگرانی کرنے والے اسرائیلی فوج کے خواتین یونٹ کی حماس کے حملے سے متعلق انتباہ کو کیوں نظرانداز کیا گیا اور سرحد کی نگرانی کے لیے ٹیکنالوجی پر ضرورت سے زیادہ انحصار کیوں کیا گیا؟

اسرائیل کا قیام فوجی، انٹیلیجنس اور سکیورٹی کی برتری کی بنیاد پر ہوا تھا۔ یہ ایک ایسا ملک تھا جس کے اندر لاکھوں لوگ بے گھر تھے اور اس کے سارے پڑوسی اس کے دشمن تھے۔

اسرائیل کی بقا کا تحفظ اس کی انٹیلیجنس کمیونٹی کی وسیع، پیچیدہ اور خفیہ تنظیموں کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

موساد

موساد کو اسرائیل کے وجود میں آنے کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد دسمبر 1949 میں قائم کیا گیا تھا جس کا کام ملک کو بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنا تھا۔ اس ادارے کو قائم کرنے کا مقصد یہ بھی تھا کہ اسرائیل کے وجود کو محفوظ رکھا جائے۔

شاباک یا شن بیٹ

شاباک یا شن بیٹ کا قیام 1949 میں عمل آیا تھا اور اس انٹیلیجنس ایجنسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی داخلی سلامتی کو یقینی بنائے۔

شن بیٹ کا دعویٰ ہے کہ وہ غربِ اردن اور غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے خلاف اٹھنے والے خطرات کے خلاف ’غیرمرئی ڈھال‘ ہے۔

آمان

آمان اسرائیل کی ملٹری انٹیلیجنس ایجنسی ہے جو کہ ڈیفنس فورسز کے جنرل سٹاف کے تحت کام کرتی ہے۔

اس ایجسنی کا بنیادی کام معلومات کا حصول اور اس کا تجزیہ کر کے انٹیلیجنس فوجی کمانڈ کو فراہم کرنا ہوتا ہے۔

اسرائیل میں انٹیلیجنس اداروں کی تاریخ اس کے وجود میں آنے سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ برطانوی دورِ حکومت میں 1922 سے 1948 کے درمیان یہاں ’شائی‘ نامی جاسوس ایجنسی کام کرتی تھی جو کہ صیہونی نیم فوجی تنظیم ’ہگاناہ‘ کا انٹیلیجنس وِنگ تھی۔

اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد آمان کی بنیاد ہگاناہ ہی کے طرز پر رکھی گئی۔

آمان متعدد یونٹس پر مشتمل ہے لیکن 8200، 9900 اور 504 اس کے اہم ترین یونٹس ہیں جو کہ غزہ میں اسرائیلی جنگ میں اہم کردار نبھا رہے ہیں۔

ان یونٹس کی ذمہ داری ہے کہ یہ ایران کی جانب سے اسرائیل کو لاحق انٹیلیجنس اور فوجی خطرات کی نشاندہی کریں۔

غزہ میں اسرائیلی جنگ کی ابتدا سے قبل میڈیا میں یہ اطلاعات بھی نشر کی گئیں تھیں کہ اسرائیل نے اپنے انٹیلیجنس سرکل میں ایک نئے یونٹ ’برانچ 54‘ کا اضافہ کیا ہے۔

اس یونٹ کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’برانچ 54‘ ملک کے ملٹری انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ کے زیرِ نگرانی کام کرے گا اور اس کی ذمہ داری ہو گی کہ یہ ایران اور خصوصاً پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ ہونے والی کسی بھی ممکنہ جنگ کے لیے تیاریاں کرے۔

یونٹ 8200

یونٹ 8200 کا شمار اسرائیلی انٹیلیجنس نظام کے اہم ترین ستونوں میں کیا جاتا ہے اور اسی کے ذریعے اسرائیلی فوج الیکٹرانک جاسوسی کرتی ہے۔

اسرائیلی فوج کے مطابق یہ اُن کا سب سے بڑا اور اہم ملٹری انٹیلیجنس یونٹ ہے۔

اطلاعات کے مطابق یونٹ 8200 میں 10 ہزار سے زائد افراد کام کرتے ہیں اور اس میں کام کرنے والے اہلکاروں کا انتخاب ایلیٹ اور پڑھی لکھی فورسز میں سے کیا جاتا ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس یونٹ میں کام کرنے والے اہلکاروں کی تعداد موساد اور شن بیٹ کے اہلکاروں سے بھی زیادہ ہے۔

اسرائیلی فوج کے مطابق جاسوسی کے لیے ڈیجیٹل اور الیکٹرانک آلات بنانے کی ذمہ داری بھی یونٹ 8200 کی ہی ہے۔ وہ معلومات اکھٹی کرتے ہیں، اس کا تجزیہ کرتے ہیں اور متعلقہ حکام کو ارسال کرتے ہیں۔

یونٹ 8200 اسرائیل کے تمام علاقوں میں متحرک ہے اور حالات جنگ میں اسرائیلی فوج کے ہیڈکوارٹرز سے کام کرتا ہے تاکہ معلومات تک رسائی کو تیز بنایا جا سکے۔

یونٹ 8200 کو دی گئی ذمہ داریاں

* مواصلاتی نظام کی وائرٹیپنگ۔

* انٹیلیجنس اور فوجی معلومات کو ڈی کوڈ کرنا۔

* سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سے انٹیلیجنس اکھٹی کرنا
* سائبر خطرات کی شناخت۔

* انٹیلیجنس اکھٹی کرنے کے لیے الیکٹرانک اور سائبر آلات بنانا۔

ٹیکنالوجی کے اعتبار سے یونٹ 8200 کا موازنہ دنیا کی بڑی جاسوس ایجنسیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے اور تکنیکی لحاط سے اسے امریکی ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کا ہم پلہ گردانا جاتا ہے۔

یونٹ 8200 کی سرگرمیوں کو ہمیشہ خفیہ رکھا گیا ہے لیکن اس کے باوجود عسکری اور انٹیلیجنس ماہرین کا کہنا ہے کہ اس یونٹ نے اسرائیل کے دفاعی اور جارحانہ دونوں قسم کے آپریشنز میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یونٹ 8200 ایران میں 2010 میں جوہری تنصیبات پر ہونے والے سائبر حملے میں بھی ملوث تھا۔ ایرانی تنصییبات کو متاثر کرنے کے لیے یونٹ 8200 نے سٹکس نیٹ نامی وائرس کا استعمال کیا تھا۔

یونٹ 8200 کے ڈپٹی کمانڈر یوری سٹیو نے اسرائیلی اخبار’ہاریتز‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’سائبر میدان میں ایران کے ساتھ ہماری جنگ جیسی دنیا میں اور کوئی مثال نہیں۔‘

یونٹ 8200 کی جانب سے سوشل نیٹ ورکس میں ملازمت کرنے والے افراد اور گروہوں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے تاکہ خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کی جا سکے۔

یونٹ 8200 کا قیام 1952 میں عمل میں آیا تھا اور اس کا پہلا نام ’سیکنڈ انٹیلیجنس سروسز یونٹ‘ رکھا گیا تھا۔ بعد میں اس یونٹ کو 848 یا 515 کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ 1967 میں عرب ممالک کے ساتھ چھ روزہ جنگ میں بھی یونٹ 8200 نے مصر اور شام میں انٹیلیجنس اکھٹی کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

یہ جنگ اسرائیل کی فتح پر ختم ہوئی تھی۔

جنوبی اسرائیل پر 7 اکتوبر کو ہونے والے حماس کے حملے کے بعد یونٹ 8200 اسرائیلی میڈیا میں خبروں میں رہا ہے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق حماس کے حملے سے ایک سال پہلے یونٹ 8200 نے حماس کے ریڈیو کی نگرانی بند کردی تھی۔

یونٹ 9900

اگر یونٹ 8200 کو اسرائیل کے ’کان‘ کہا جا سکتا ہے تو یونٹ 9900 کو اس کی ’آنکھیں‘ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

یونٹ 9900 کی ذمہ داریوں میں تصاویری اور ویڈیو انٹیلیجنس حاصل کرنا شامل ہے۔ انٹیلی جنس کے حصول کے لیے اس یونٹ کی طرف سے سیٹلائٹ، جاسوس جہازوں اور ڈرون طیاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

انٹیلیجنس کا حصول اور اس کے تجزیوں پر مبنی رپورٹس فیصلہ سازوں اور فوجی کمانڈرز کو مہیا کرنا بھی یونٹ 9900 کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

یونٹ 9900 کے پاس جدید ٹیکنالوجی موجود ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے وہ جنگ میں مصروف اسرائیلی فوج کو تھری ڈی نقشے بنا کر دیتے ہیں۔

حال ہی میں 2020 میں یونٹ 9900 میں ایک اور یونٹ قائم کیا گیا ہے جس کی ذمہ داری جاسوس ڈرونز کی سرگرمیوں کو بڑھانا ہے۔

سال 2020 میں ہی صحافیوں کو یونٹ 9900 کی قابلیت اور صلاحتیں دکھانے کے لیے ایک پروگرام میں مدعو کیا گیا تھا۔ اس وقت میڈیا کی جانب سے لکھا گیا تھا کہ نئے یونٹ کی تشکیل اسرائیلی فوج کی کوششوں کا نتیجہ ہے جس کے تحت شہری علاقوں میں انٹیلیجنس جمع کرنے کی صلاحیت کو بڑھایا جائے گا۔

اطلاعات کے مطابق سیٹلائٹ کے ذریعے ایران کی نگرانی کرنا بھی یونٹ 9900 کی ذمہ داری ہے جو کہ اسرائیل کی جاسوس سیٹلائٹ افق 13 کے ذریعے کی جاتی ہے۔

یونٹ 504

یونٹ 504 ہیومن انٹیلیجنس جمع کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس یونٹ کی بنیادی ذمہ داری داخلی خطرات کی نگرانی کرنا ہے لیکن اس کے علاوہ یہ یونٹ اسرائیل کی سرحد کے باہر جاسوس بھی بھرتی کرتا ہے۔

اس یونٹ کے لیے کام کرنے والے فوجی اور جاسوس غزہ سمیت دیگر ممالک میں بھی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔

اسرائیلی فوج کا یونٹ 504 کے حوالے سے کہنا ہے کہ ’ملک کی سلامتی میں اس یونٹ کا مرکزی کردار رہا ہے اور اس کی جانب سے سینکڑوں کامیاب آپریشن کیے جا چکے ہیں لیکن اس کے باوجود اس یونٹ کی سرگرمیوں سے چند ہی لوگ واقف ہیں۔‘

یونٹ 504 لوگوں کے ذریعے انٹیلیجنس جمع کرتا ہے اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران اسے اکثر موساد اور شن بیٹ کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑتا ہے۔

ان تمام ذمہ داریوں کے علاوہ یونٹ 504 کو لبنان کا محاذ بھی دیا گیا ہے جہاں یہ انٹیلیجنس اکھٹی کرتا ہے۔

لیکن 7 اکتوبر کے حملے کے بعد یونٹ 504 نے جنوبی اسرائیل میں اپنا کمانڈ ہیڈکوارٹر بنا لیا اور اس کی توجہ اب غزہ پر بھی مرکوز ہے۔

غزہ میں جاری جنگ کے دوران جب اسرائیلی فوج نے شفا ہسپتال کا محاصرہ کیا تو اسرائیلی میڈیا پر یہ خبریں نشر کی گئیں کہ اس ہسپتال میں حماس کی سرگرمیوں کے حوالے سے معلومات یونٹ 504 کے ذریعے آئی تھیں۔

اس وقت کہا گیا تھا کہ یونٹ 504 نے ہسپتال میں موجود فلسطینیوں سے تفتیش کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ شفا ہسپتال میں حماس کے 80 سے 100 اراکین موجود ہیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شام میں خانہ جنگی کے دوران شامی صدر بشار الاسد کو اپوزیشن اور باغیوں کے ساتھ تناؤ کم کرنے کے لیے راضی کرنے میں یونٹ 504 نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

سال 2019 میں اسرائیلی فوج نے شمالی اسرائیل میں ’دہشتگرد حملے ناکام بنانے‘ پر یونٹ 504 کو سراہا تھا۔

برانچ 54

جون 2023 میں اسرائیلی میڈیا نے خبر نشر کی تھی کہ اسرائیلی فوج میں ایک نئے انٹیلیجنس یونٹ کی بنیاد رکھی گئی ہے جس کا کام ایران اور پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ ممکنہ جنگ پر توجہ رکھنا ہو گا۔

پہلی مرتبہ ’وائے نیٹ‘ نامی اسرائیلی ویب سائٹ نے رپورٹ کیا تھا کہ برانچ 54 ایران کی فوجی سرگرمیوں اور ٹریننگ تکینک سے متعلق معلومات اکھٹی کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق اس وقت اس یونٹ میں صرف 30 اہلکار کام کر رہے تھے۔

اس یونٹ کے ایک کمانڈر کا کہنا تھا کہ ’برانچ 54 کا قیام اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ اسرائیلی فوج کا ذہن‘ ایرانی فوجی خطرے کے حوالے سے بدل رہا ہے۔

انھوں نے مزید کہا تھا کہ ایران کے ساتھ ممکنہ جنگ ’ہماری حزب اللہ، حماس یا اسلامی جہاد کے خلاف جنگوں جیسی بالکل بھی نہیں ہو گی۔‘

برانچ 54 کے اس کمانڈر کا نام میڈیا رپورٹس میں ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔ اپنے کام پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسرائیلی فوج کو ایرانی سکیورٹی انفراسٹکچر اور فوجی صلاحیتوں سے متعلق معلومات فراہم کریں۔‘

اس انٹیلیجنس یونٹ کا ایک حصہ ایران میں ان مقامات کی نشاندہی کرتا ہے جہاں کسی بھی جنگ کی صورت میں حملے کیے جا سکیں۔

برانچ 54 کے کمانڈر کے مطابق اُن کی سرگرمیاں ایران میں پاسدارانِ انقلاب پر مرکوز ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ہر روز اہداف کی شناخت کر رہے ہیں اور تحقیق کر رہے ہیں کہ ان پر اثرانداز ہونے والے حملے کیسے کیے جائیں۔ ہم پہلے ہی ایران میں موجود اہداف کو شناخت کر چکے ہیں اور اس کے پاس جوہری طاقت ہونے سے بھی ہمیں فرق نہیں پڑتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ کوئی بھی ’فوجی لڑائی ایک علیحدہ داستان ہو گی۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں