فوج نے شادی ہالز اور دیگر دھندے شروع کر رکھے ہیں، سب اپنے مینڈیٹ میں رہیں، چیف جسٹس قاضی عیسیٰ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دفاعی زمینوں پر کمرشل سرگرمیوں کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ فوج نے دی گئی سرکاری زمین پر شادی ہالز اور دیگر دھندے شروع کر رکھے ہیں۔ سب کو اپنے مینڈیٹ میں رہنا چاہیے۔

اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق چیف جسٹس نے کراچی میں تجاوزات اور دفاعی مقاصد کے لیے حاصل کردہ زمینوں پر کاروباری سرگرمیوں کے کیس کی سماعت کی تو اس موقع پر اٹارنی جنرل، متروکہ وقف املاک بورڈ کے وکلا سمیت دیگر کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ فوج نے دی گئی زمین پر شادی ہالز اور دیگر دھندے شروع کر رکھے ہیں۔ یقین دہانی کرائیں فوج صرف دفاع کا کام کرے کاروبار نہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سب کو اپنے مینڈیٹ میں رہنا چاہیے۔ فوج اپنا کام کرے اور عدالتیں اپنا کام جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اصول تو یہی ہے کہ سب اپنا اپنا کام کریں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اگر آپ کو ایسی ہدایات ہیں تو عدالت کو یقین دہانی کرا دیں۔

واضح رہے کہ کراچی تجاوزات کیس میں اعلیٰ عدالت فوج کے زیرِ استعمال زمین پر کمرشل سرگرمیوں پر پہلے بھی شدید برہمی کا اظہار کر چکی ہے۔

نومبر 2021 میں کیس کی سماعت کے دوران سابق جج جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تھا کہ دفاعی اداروں کا یہ کام نہیں کہ وہ سنیما گھر اور دیگر منافع بخش کام شروع کر دیں۔

‘جس بلڈنگ سے تنازع شروع ہوا وہ متروکہ وقف املاک بورڈ کی ہے’

سپریم کورٹ میں بدھ کو دورانِ سماعت متروکہ وقف املاک بورڈ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ تنازع جس عمارت سے شروع ہوا تھا وہ متروکہ وقف املاک بورڈ کی ہے جس کے الاٹیز نے جعلی دستاویزات پر زمین اپنے نام کر کے اسے فروخت کر دیا تھا اور اب وہاں پانچ منزلہ عمارت کھڑی ہے۔

عدالتی بینچ میں شامل جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پانچ منزلہ بلڈنگ بنتی رہی تب متروکہ املاک بورڈ تماشائی بنا رہا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کی ملی بھگت کے بغیر غیر قانونی تعمیرات ممکن نہیں۔ متعلقہ محکمے کے انسپکٹرز اور اعلیٰ افسران کے اثاثے چیک کرانے چاہئیں۔

جسٹس قاضی فائز نے مزید کہا کہ کراچی کے سب رجسٹرارز کے اثاثوں کا آڈٹ بھی ایف بی آر سے کرانا چاہیے اور آمدن سے زائد تمام اثاثوں سے رقم مسمار کی گئی عمارتوں کے رہائشیوں کو ملنی چاہیے۔ سندھ حکومت یہ انکوائری کبھی نہیں کرے گی۔

ڈائریکٹر جنرل سندھ بلدنگ کنٹرول اتھارٹی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کے محکمے میں کتنے انسپکٹرز اور افسران ہیں؟ جس پر ڈی جی ایس بی سی اے نے بتایا کہ مجموعی طور پر 1400 ملازمین ہیں جن میں چھ سو بلڈنگ انسپکٹر اور تین سو سینئر انسپکٹر شامل ہیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر کراچی کی انتظامیہ نے نومبر 2021 میں کثیر المنزلہ عمارت نسلہ ٹاور کو مسمار کیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں