نیو یارک (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی ڈبلیو) ہیومن رائٹس واچ نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آزاد تفتیشی اداروں کو فوری طور پر ان شامی علاقوں تک رسائی دے جو اس کے کنٹرول میں ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے جمعرات کو شائع ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں شام کے شمالی علاقوں میں انسانی اور زمین و جائیداد سے متعلق حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار ترکی کو ٹھہرایا۔
???? Coming tomorrow: A detailed report by @HRW exposing grave abuses and potential war crimes in Turkish-occupied territories of northern Syria, or as Turkish officials like to call them: "safe zones". pic.twitter.com/z0RJWdIj7r
— Hiba Zayadin (@ZayadinH) February 28, 2024
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی شام میں ترک فوج اور ترکی کے حمایت یافتہ مسلح مقامی گروپوں کے ممبران کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ممکنہ جنگی جرائم کی ذمہ داری ترکی پر عائد ہوتی ہے۔
Quick Takes in @astroehlein’s Daily Brief:
????atrocities in “safe zone” of Turkish-Occupied Northern Syria
????tracking long overdue payments to migrant workers in Saudi Arabia
????and the ASEAN-Australia Special Summit
Read more: https://t.co/iPSyZVrHEh pic.twitter.com/49FEQhNnML
— Human Rights Watch (@hrw) February 29, 2024
ترکی نے شام کے شمالی علاقوں سے سیرین ڈیموکریٹک فورسز، جس کی قیادت کرد کر رہے ہیں، کو نکالنے کے لیے وہاں 2016ء سے متعدد زمینی کارروائیاں کی ہیں اور اب اس علاقے کی دو بڑی سرحدی پٹیوں پر ترکی کے پراکسی گروپوں کا کنٹرول ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بعض واقعات میں شمالی شام میں تعینات ترک افسران ایسی کارروائیوں میں “براہ راست ملوث” رہے ہیں جو “بظاہر جنگی جرائم” ہیں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اس علاقے میں ترک افواج اور انٹیلجنس ایجنسیوں کی جانب سے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان خلاف ورزیوں میں “اکثر کرد شہریوں اور ایسے افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے جن کے بارے میں یہ تاثر ہو کہ وہ کرد فورسز سے منسلک ہیں۔”
اس رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ سیرین نیشنل آرمی سے منسلک گروپوں اور ملٹری پولیس کی جانب سے تحویل میں لی گئی خواتین نے بتایا ہے کہ ان کو جنسی تشدد بشمول ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ ان گروپوں اور ملٹری پولیس کی جانب سے چھ ماہ کی عمر کے بچوں کو بھی ان کی ماؤں سمیت حراست میں لیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ترکی کے حمایت یافتہ سیرین نیشنل آرمی کے کچھ باغی گروپ اور ملٹری پولیس نے “کئی افراد کو حراست میں لے کر قید میں رکھا ہے، کئی کو جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا ہے، کئی پر تشدد یا ان کے ساتھ برا سلوک کیا ہے اور کئی کو غیر منصفانہ فوجی ٹرائلز کا نشانہ بنایا ہے”۔
اس رپورٹ میں ایک ایسے شامی شہری کے بیانات بھی شامل کیے گئے ہیں، جس نے سیرین نیشنل آرمی کی حکمرانی کا دور بھی دیکھا ہے۔ بقول اس کے، “(وہاں) سب کچھ ہتھیار کے زور پر ہوتا ہے۔”
اس کے علاوہ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں انقرہ پر ترکی سے ہزاروں کی تعداد میں شامی پناہ گزینوں کو ڈی پورٹ کر کہ شام کے ان علاقوں میں بھیجنے کا الزام لگایا ہے جو ترکی کے کنٹرول میں ہیں۔
اس رپورٹ میں ترکی سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ آزاد تفتیشی اداروں کو فوری طور پر ان شامی علاقوں تک رسائی دے جو اس کے کنٹرول میں ہیں۔