سندھ ہائی کورٹ نے ہندو پروفیسر نوتن لال کو توہین مذہب کے الزام سے بری کر دیا

کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) سندھ ہائیکورٹ کے سکھر بینچ نے ایک ہندو پروفیسر کو توہین مذہب کے الزام سے بری کر دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں اس معاملے میں پولیس تفتیش کے دوران کوتاہیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہندو پروفیسر نوتن لال کبھی بھی کسی بھی سماج مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے اور نہ ہی ان کے خلاف مذہبی منافرت کو بھڑکانے یا کسی کے خلاف کوئی نازیبا الفاظ کہنے کا ثبوت ملتا ہے۔

واضح رہے کہ مذکورہ ہندو پروفیسر پر سنہ 2019 میں توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا تھا، جس کے بعد دو سال قبل ایک مقامی عدالت نے ان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

ہندو پروفیسر کا خاندان اس واقعے کے بعد سے دربدری کی زندگی گزار رہا تھا۔ پروفیسر کی بیٹی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں عدالتی فیصلے سے کچھ ریلیف تو ملا ہے لیکن ابھی تک صورتحال غیر واضح ہے کیونکہ رہائی نہیں ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ ’میرے والد کی 30 سال سرکاری ملازمت تھی۔ ہمارے خاندان پر کبھی کوئی مقدمہ نہیں رہا۔ ہم تین بہنیں، ایک بھائی اور والدہ ہیں۔ ہم سنہ 2019 سے دربدر ہو رہے ہیں۔ میرے 60 سالہ والد کو پانچ سال قید میں رکھا گیا اور ہمیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ والد کی تنخواہ بند ہے اور آمدن کا اور کوئی ذریعہ نہیں۔‘

’پولیس کو معلوم ہی نہیں کہ گستاخانہ الفاظ کیا تھے‘

سندھ ہائیکورٹ نے اپنی تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ پولیس نے عجلت میں تحقیقات کی ہیں اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ایک دن میں پوری تفتیش سمیٹ دی گئی، جس میں 15 گواہوں کی جانچ کرنا، ان کے بیان ریکارڈ کرنا، جائے وقوعہ کا دورہ وغیرہ کرنا شامل تھا۔

فیصلے کے مطابق پولیس نے 15 گواہوں پر جرح کی جس میں صرف پانچ گواہوں نے اپیل کنندہ کے خلاف الزامات کی حمایت کی، ان کے بیانات زیادہ تر ایک دوسرے کی بالکل نقل نظر آتے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے بیان فطری انداز میں نہیں بلکہ پہلے سے طے شدہ ذہن کے ساتھ دیے گئے۔

ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ الزام کی سنگینی اور حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس کی تحقیقات کے لیے مزید وقت اور محنت کرتے لیکن یہ پولیس افسر کی ذمہ داری سے کنارہ کشی کی اعلیٰ مثال ہے۔

ہائی کورٹ نے ایف آئی آر کے اندراج پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کو یہ معلوم ہی نہیں تھا اور نہ ہی ایف آئی آر میں اس کا ذکر ملتا ہے کہ گستاخانہ الفاظ کیا تھے لہذا پولیس کا یہ عمل سنگین غفلت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق ایسے معاملات میں ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے حقائق کو اچھی طرح ذہن میں رکھیں کیونکہ یہ پولیس کا فرض ہے کہ وہ ایسی ہر کوشش کو ناکام بنائے جس سے کوئی شخص معاشرے میں بدامنی یا انتشار پھیلانا چاہتا ہے۔

پروفیسر پر توہین مذہب کا الزام کیسے لگا؟

پولیس کے مطابق توہین مذہب کے الزام کا یہ معاملہ سنہ 2019 میں اس وقت شروع ہوا، جب ہندو پروفیسر (اس سکول کے مالک) کلاس میں اُردو کا مضمون پڑھا رہے تھے۔

کلاس ختم ہونے کے بعد اُن کے ایک شاگرد اسلامیات کے ٹیچر کے پاس گئے اور پروفیسر پر پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے کا الزام لگایا۔

اساتذہ نے اس معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی اور ہند پروفیسر نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی نیت کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی نہیں تھی۔

لیکن مذکورہ طالبعلم نے اس واقعے کا ذکر اپنے والد سے کیا اور فیس بک پر بھی پوسٹ کر دیا جس کے بعد لوگوں میں اشتعال پھیل گیا۔

واقعے کے بعد مقامی بازار میں ہڑتال بھی کی گئی جس کے دوران ایک گروہ نے سکول عمارت پر حملہ کر دیا اور وہاں توڑ پھوڑ کی۔

اس کے علاوہ ایک اور گروہ نے ہندو پروفیسر کی رہائش گاہ پر بھی حملہ کیا اور مندر پر بھی حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی گئی۔

اس واقعے کے بعد حالات کشیدہ ہونے پر ضلعی انتظامیہ نے رینجرز کو طلب کر لیا تھا۔

گھوٹکی عدالت کی سزا کیا تھی؟

گھوٹکی کی مقامی عدالت نے ہندو پروفیسر کو عمر قید اور جرمانے کی سزا سُنائی تھی۔

سندھ میں ماضی قریب میں یہ اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے جس میں کسی ہندو شہری کو توہین مذہب کے الزام میں سزا سُنائی گئی ہو۔

عدالت کے تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ استغاثہ کے مطابق 14 ستمبر 2019 کو مدعی مقدمہ نے گھوٹکی تھانے میں مقدمہ درج کروایا تھا کہ اُن کا بیٹا ایک پبلک سکول میں پڑھتا ہے اور اُس نے انھیں بتایا کہ سکول کے مالک پروفیسر نے مبینہ طور پر کلاس میں ’پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی‘ اور چلے گئے۔

مدعی مقدمہ کے مطابق اُن کے بیٹے نے یہ بات دو گواہوں کی موجودگی میں بیان کی۔

گھوٹکی کے ایڈیشنل سیشن جج نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا تھا کہ استغاثہ نے جو گواہ پیش کیے، وہ ’آزاد اور قابل بھروسہ‘ ہیں اور ان کے بیانات ’بدنیتی پر مبنی نہیں‘ کیونکہ ان میں سے کسی کی ملزم سے ذاتی دشمنی یا عناد نہیں، لہٰذا ان کی گواہی پر یقین نہ کرنے کا جواز نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں