گزشتہ برس ایران نے 167 بلوچوں سمیت 834 افراد کو پھانسیاں دیں

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ایران نے گزشتہ برس کم از کم آٹھ سو چونتیس (834) افراد کو سزائے موت دی ہے جو سن 2015 کے بعد سزائے موت پانے والوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے اور اسلامی جمہوریہ میں سزائے موت ایک حیران کن سطح تک پہنچ گئی ہے۔

ایران میں حالیہ برسوں میں دی جانے والی پھانسیوں کی تعداد، سال 2022 کے مقابلے میں کوئی 43 فیصد زیادہ تھی۔ ناروے میں قائم ’ایران ہیومن رائٹس‘ آئی ایچ آر اور پیرس میں قائم ’ٹوگیدر اگینسٹ ڈیتھ پینلٹی‘ یا ای سی پی ایم نے ایک مشترکہ رپورٹ میں کہا ہے کہ دو دہائیوں میں یہ صرف دوسری بار ہے کہ ایک سال میں آٹھ سو سے زیادہ پھانسیاں ریکارڈ کی گئیں۔

اس سے قبل 2015 میں 972 پھانسیاں دی گئی تھیں۔ ان گروپوں نے ایران پر الزام لگایا کہ وہ ستمبر 2022 میں مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد ہونے والے مظاہروں کے خلاف اپنی کارروائی کے دوران خوف و ہراس پھیلانے کے لیے سزائے موت کا استعمال کر رہا ہے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (آئی ایچ آر) کے ڈائرکٹر محمود امیری مغادم نے اس رپورٹ میں 834 پھانسی کی سزاؤں کو حیران کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ معاشرے میں خوف پھیلانا، اقتدار پر قائم رہنے کا حکومت کا واحد طریقہ ہے اور سزائے موت اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔

ای سی پی ایم کے ڈائرکٹر رافیل حازان نے کہا کہ ایران میں حکومت نے احتجاج کے خلاف لڑنے کے لیے سزائے موت کو ایک آلہ کار بنا لیا ہے۔

حقوق انسانی کے گروپوں کے مطابق ایران نے 2022 کے ملک گیر احتجاج کے دوران، سیکیورٹی فورسز پر حملوں سے منسلک مقدمات میں نو افراد کو پھانسی دی ہے۔ اس وقت تک 2 کو 2022 میں، 6 کو 2023 میں اور ایک کو 2024 میں یہ سزائیں دی جا چکی ہیں۔

دیگر الزامات کے تحت بھی پھانسی کی سزاؤں میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور سے منشیات سے متعلق مقدمات میں، جن میں پہلے کمی آئی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خاص طور پر تشویش کی بات یہ ہے کہ 2023 میں منشیات سے متعلق معاملات میں پھانسیوں کی سزاؤں میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے، جو بڑھ کر 471 افراد کی پھانسیوں تک پہنچ گیا، جو 2020 میں ریکارڈ کی گئی تعداد سے 18 گنا زیادہ ہے۔

نسلی اقلیتیں اور خواتین

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نسلی اقلیتوں کے افراد کی، خاص طور سے ایران کے جنوب مشرقی علاقے سے تعلق رکھنے والی، بڑی سنی مسلمان بلوچ کمیونٹی کی بھاری اکثریت ان لوگوں میں شامل ہے جن کو منشیات سے متعلق الزامات میں موت کی سزائیں دی گئی ہیں۔

گزشتہ برس بلوچ اقلیت کے کم از کم 167 افراد کو پھانسی دی گئی۔

ایران میں زیادہ تر پھانسیاں قید خانوں کے اندر ہی دی جاتی ہیں لیکن رپورٹ کے مطابق 2023 میں ایران میں جو پھانسیاں برسر عام دی گئیں وہ 2022 کے مقابلے میں تین گنا سے بھی زیادہ تھیں۔

کم از کم 22 خواتین کو بھی موت کی سزائیں دی گئیں، جو رپورٹ کے مطابق گزشتہ دہائی میں سب سے بڑی تعداد تھی۔

حقوق انسانی کے گروپ چین کے بعد ایران کو دنیا میں موت کی سب سے زیادہ سزائیں دینے والا ملک سمجھتے ہیں۔

چین میں دی جانے والی موت کی سزاؤں کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن وسیع پیمانے پر باور کیا جاتا ہے کہ وہاں ہر سال کئی ہزار لوگوں کو موت کی سزائیں دی جاتی ہیں۔

ایسے وقت میں جب دنیا کی توجہ حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ کی جنگ پر مرکوز ہے، امیری مغادم نے تشویش ظاہر کی ہے کہ موت کی ان سزاؤں کے خلاف خاطر خواہ عالمی غم و غصے کا اظہار نہ ہونے سے، موت کی سزائیں دینے کے لیے ایران کی محض حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔

آئی ایچ آر کے اعداد و شمار کے مطابق ایران 2024 میں اب تک کم سے کم 83 افراد کو موت کی سزائیں دے چکا ہے۔

امیری مغادم نے کہا انہیں خوف ہے کہ اگر بین الاقوامی برادری نے سخت رد عمل کا مظاہرہ نہ کیا تو وہاں موت کی مزید سزائیں دی جائیں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں