سعودی عرب میں 5 پاکستانیوں کے سر قلم

مکہ مکرمہ (ڈیلی اردو) سعودی عرب میں ایک بنگلہ دیشی گارڈ کے قتل کے الزام میں پانچ پاکستانیوں کو موت کی سزا دے دی گئی۔ قصورواروں کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا اور پھر اعلی عدالتوں نے بھی سزا کو برقرار رکھا، جس کے بعد سزا پر عمل ہوا۔

مشرق وسطی کے ایک معروف میڈیا ادارے ‘گلف نیوز’ نے سعودی عرب کے حکام کے حوالے سے یہ اطلاع دی ہے کہ رواں ہفتے مملکت میں پانچ پاکستانیوں کو موت کی سزا دی گئی۔ جن افراد کے سر قلم کیے گئے، ان پر ایک کمپنی پر دھاوا بولنے کے دوران ایک گارڈ کو قتل کرنے کا الزام تھا۔

اطلاعات کے مطابق موت کی سزا پر عمل گزشتہ منگل کے روز مسلمانوں کے مقدس شہر مکہ میں ہوا۔

سزائے موت پانے والوں میں ارشد علی دیبار محمد اسماعیل، عبدالمجید حاجی نور الدین، خالد حسین بٹجو قربان علی، عبدالغفار میر بحر لفط اللہ اور عبدالغفار محمد سوما شامل ہیں، جبکہ ہلاک بنگلادیشی کی شناخت انیس میاں کے نام سے ہوئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ارشد علی دیبار محمد اسماعیل، عبدالمجید حاجی نورالدین، اور عبدالغفار محمد سوما پر ڈکیتی کی دفعات بھی شامل کی گئی تھیں، جبکہ ان کی سزا موت سنائی گئی۔

دوسری جانب خالد حسین بٹجو قربان علی اور عبدالغفار میر بحر لطف اللہ صوبیدادی سزا کے تحت سزا دی گئی۔

سعودی عرب میں قتل اور دہشت گردانہ حملوں کے ساتھ ہی منشیات کی اسمگلنگ جیسے جرائم میں سزائے موت کا اطلاق ہوتا ہے۔ مملکت میں ہر برس اس طرح کے جرائم سے وابستہ درجنوں افراد کو موت کی سزا دی جاتی ہے۔

اس کیس کی مزید تفصیلات کیا ہیں؟

گلف نیوز نے سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ”قصوروار پاکستانی شہریوں نے نجی شعبے کی ایک فرم پر حملہ کیا تھا اور اس دوران انہوں نے کمپنی کے دو محافظوں کو باندھ دیا اور ان کے ساتھ مار پیٹ کی، جس میں سے ایک بنگلہ دیشی گارڈ کی موت ہو گئی” تھی۔

وزارت داخلہ کے مطابق اس معاملے کی تفتیش کے بعد پانچوں ملزمان کو ایک عدالت کے سامنے پیش کیا گیا، جس نے انہیں قصوروار قرار دیتے ہوئے موت کی سزا سنائی۔

ذیلی عدالت کے اس فیصلے کو بعد میں اپیل عدالت اور پھر سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ پھر ایک شاہی حکم کے ذریعے ان کی سزائے موت کو منظوری دی گئی، جس سے ان کی موت کی سزا حتمی بن گئی۔ منگل کے روز مکہ کے شہر میں ان کی موت کی سزاؤں پر عمل ہوا۔

سعودی عرب میں موت کی سزائیں

سعودی عرب اپنے سخت قانونی نظام کے لیے جانا جاتا ہے اور عموماً قتل، دہشت گردانہ حملوں اور منشیات کی اسمگلنگ جیسے جرائم کے لیے سزائے موت دی جاتی ہے۔ ہر برس اس طرح کے جرائم میں ملوث درجنوں افراد کا سر قلم کیا جاتا ہے، جس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں نکتہ چینی بھی کرتی رہی ہیں۔

موت کی سزا پر عمل کا یہ تازہ واقعہ جنوری میں ایک حالیہ ایسی ہی سزا کے بعد پیش آیا ہے، جس میں چار ایتھوپیائی تارکین وطن کو سوڈانی شہری کے قتل کے جرم میں موت کی سزا دی گئی تھی۔

البتہ حکام نے اس وقت اس قتل کی محرکات کو ظاہر نہیں کیا تھا آخر سوڈانی شہری کو کیوں قتل کیا گیا۔ اسی طرح گزشتہ دسمبر میں بھی ایک اور معاملے میں دو بنگلہ دیشی تارکین وطن کو موت کی سزا دی گئی تھی۔

ان دونوں بنگلہ دیشی شہریوں نے مالی تنازعے کے سبب ایک بھارتی شہری کو قتل کر دیا تھا اور اسے مارنے کے لیے کیڑے مار دوا کو بطور ہتھیار استعمال کیا تھا۔

سعودی عرب میں جس انداز سے سزائے موت پر عمل ہوتا ہے، اس پر بین الاقوامی توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ہی تنقید بھی ہوتی رہی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں ان قانونی کارروائیوں، جن کے تحت موت جیسی سخت سزائیں دی جاتی ہیں، کی شفافیت اور منصفانہ ہونے کے بارے میں اکثر تشویش کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں