گوجرانوالہ: نوجوان کو توہینِ مذہب کے الزام پر سزائے موت، دوسرے کم عمر ملزم کو دو بار عمر قید کی سزا

لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی) وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے رواں ہفتے پیغمبرِ اسلام اور ان کی ازواج کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے، قرآن کی بے حرمتی کرنے اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے الزامات پر 22 سالہ طالبعلم کو سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔

عدالت نے اسی مقدمے کے دوسرے ملزم، جن کی عمر 17 سال ہے، کو نابالغ ہونے کے باعث سزائے موت کے بجائے دو بار عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

دونوں طلبا کے خلاف مقدمہ دو سال قبل 15 جون 2022 کو لاہور کے تھانہ ایف آئی اے سائبر کرائم میں درج کیا گیا تھا جسے لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر گوجرانوالہ کی مقامی عدالت کو سماعت کے لیے بھجوایا تھا اور ڈیڑھ ماہ میں ٹرائل مکمل کر کے فیصلہ دینے کا حکم دیا تھا۔

ملزمان اور ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کے مقدمے میں سزا پانے والے طالبعلم کو ’جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا ہے۔‘

سزائے موت پانے والے مجرم کے والد جن کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کررہے ہیں اور اس سلسلے میں ضروری قانونی دستاویزات حاصل کیے جا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میری کسی سے لڑائی نہیں، میں نے تو مدارس سے فتوے بھی لے کر دیے مگر کسی نے ایک نہ سنی۔ بیٹے نے کہا تھا کہ ابو جان آپ سفید کپڑے پہن کر آنا، میں بری ہو جاؤں گا تو مجھے اپنے ساتھ لے جانا، لیکن جب یہ فیصلہ سنایا گیا تو میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔

’ہم بریلوی اہلِ سنت مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے گھر کے دروازے پر پیغمبرِِِ اسلام کی شان میں کلمات لکھے ہوئے ہیں، میرا بیٹا آٹھ سال کی عمر سے عید میلاد النبی پر خوبصورت سجاوٹ میں انعامات اور میڈل جیت چکا ہے، کوئی ہمیں بتائے وہ کیسے توہینِ رسالت کر سکتا ہے، ہمیں جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا ہے، ہماری کسی فورم پر سنوائی نہیں ہوئی۔‘

توہین مذہب کے اس مقدمے کے فیصلے میں کیا کہا گیا ہے؟

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج گوجرانوالہ ظفریاب چدھڑ کی طرف سے جاری ہونے والے فیصلے کے مطابق مرکزی ملزم کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی (پیغمبرِ اسلام کی توہین) کے تحت سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں دی گئی ہیں۔

اس فیصلے کے خلاف وہ سات روز میں لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کر سکتے ہیں۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے ایسی ویڈیوز بنائیں جن سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے۔

عدالتی فیصلہ کے مطابق ان پر متنازع ویڈیوز اور تصاویر تیار کر کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کا جرم بھی ثابت ہوا جس پر انھیں دفعہ 295 اے کے تحت پانچ سال قید بامشقت کاٹنی ہو گی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ان کو پیغمبرِ اسلام اور ان کی ازواج کے بارے میں نازیبا الفاظ کی ادائیگی پر دفعہ 298 سی کے تحت تین سال قید بامشقت بھگتنا ہو گی۔

عدالتی فیصلہ کے مطابق اس مقدمے کے دوسرے مجرم (نابالغ) پر تعزیرات پاکستان کی دفعات 295 سی، 295 بی، 295 اے اور 298 اے کے تحت الزامات ثابت ہوئے جس پر مجرم کو مجموعی طور پر دو مرتبہ عمر قید اور دو لاکھ روپے جرمانہ کی سزا کا حکم دیا جاتا ہے۔

فیصلہ سُنائے جانے سے قبل عدالت کے باہر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے اور پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی۔

ایڈیشنل سیشن جج ظفر یاب چدھڑ نے مجرمان کی موجودگی میں فیصلہ لکھوایا جس کے آخری پیرا گراف میں عدالت نے جدید سکولنگ اور خاص طور پر ایک نجی سکول میں قرآن اور سنت کی تعلیمات اور اس کی مانیٹرنگ نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔

فیصلہ میں کہا گیا کہ ایک نجی سکول کا نظام طالب علموں کی شخصیت نکھارنے اور ان کے مذہبی اقدار سنوارنے میں اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام ہوا۔ ’مجرمانہ غفلت کی وجہ سے طالبِ علم سیدھی راہ سے ہٹ گیا اور اپنے خاندان کے لیے بھی رسوائی کا سبب بنا۔‘

عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’جدید تعلیم دینے والے سکولوں کا فرض ہے کہ وہ طالب علموں کی سرگرمیوں پر بھی گہری نظر رکھیں۔ لیکن سکول انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ملزم کی شخصیت کو جہاں شدید نقصان پہنچا، وہیں اس کے والدین کا اپنے لختِ جگر کو جدید تعلیم دلوانے کا خواب بھی ٹوٹ گیا۔‘

عدالت نے کہا کہ سکولوں میں قرآن اور سنت کی تعلیم دینے کے تصور کو ترک کر دیا گیا ہے جو کہ افسوسناک ہے۔

عدالت نے فیصلے کی کاپی نجی سکول کے چیئرمین کو بھجوانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ مناسب وقت ہے کہ موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تاکہ عدالت نے جن تفکرات کا اظہار فیصلہ میں کیا اس کا ’جنگی بنیادوں پر بہترین حل نکالا جا سکے۔‘

عدالتی فیصلہ کے مطابق دوران سماعت یہ ثابت ہوا کہ ایک مجرم غیر اخلاقی ویڈیوز بناتا تھا جبکہ دوسرا مجرم مذکورہ ویڈیوز کو شیئر کرتا تھا۔

مجرم کے والد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’میں مدعی مقدمہ اور اس کے ساتھیوں کے خلاف نہیں بولنا چاہتا لیکن انھوں نے پہلے ہمیں کہا کہ آپ فتویٰ لے کر آئیں تو آپ کو معاف کر دیں گے، میں نے چار پانچ مدارس سے فتوے لے کر انھیں دیے لیکن ہماری بات نہیں سنی گئی، میں ایک سال تین ماہ تک لاہور ہائی کورٹ کے چکر کاٹتا رہا لیکن ہماری ضمانت کی درخواست منظور نہیں کی گئی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میرا بیٹا خون کے سفید خلیوں کی ایک بیماری میں مبتلا رہا ہے جس کا جاپان میں چھ سال تک علاج ہوتا رہا اسے پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا، میرا اب بھی یہی کہنا ہے کہ میری کسی سے لڑائی نہیں، بیٹے کی سزا ختم ہو تو میں اسے اعلٰی تعلیم کے حصول کے لیے انگلینڈ بھیجنا چاہتا ہوں جہاں وہ قانون پڑھے گا۔‘

مجرم کے والد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے، بیٹی سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کررہی تھی، مخالفین نے پہلے میری بیٹی کو بھی اس کیس میں پھنسانے کی کوشش کی لیکن میں بروقت جاپان سے پاکستان پہنچ گیا اور معاملہ رک گیا، میں یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ میں نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تو کچھ لوگ میرے بچوں کے خلاف کیوں ہو گئے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں پانچ وقت کا نمازی پرہیزگار ہوں، میں اور میرا بیٹا خانہ کعبہ جا کر حلف دینے کو تیار ہیں کہ اُس نے نہ تو کبھی توہین رسالت کی اور نہ ہی کبھی ایسا سوچا۔‘

مقدمے کی تحقیقات کیسے کی گئیں؟

اس واقعہ کا مقدمہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ لاہور میں 15 جون 2022 کو درج کیا گیا تھا جس میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 295 اے، 298 اے، 120 بی، 34 اور 109 اور الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی دفعہ 11 لگائی گئی تھی۔

جبکہ ایک ماہ دس روز بعد یعنی 25 جولائی 2022 کو مقدمے کے ضمنی چالان میں دو مزید دفعات 295 بی اور 295 سی کا اضافہ کیا گیا تھا۔

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 بی مسلمانوں کی مذہبی کتاب کی بے حرمتی کرنے پر لگائی جاتی ہے جس کی زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید ہے۔ اسی طرح 295 سی پیغمبرِ اسلام اور مذہبِ اسلام کی توہین کرنے پر لگائی جاتی ہے جس کی پاکستان کے قانون میں سزائے موت مقرر ہے۔

مقدمے کے مدعی محمد خان تھے جو لاہور کے علاقے سمن آباد کے رہائشی ہیں۔

مدعی نے الزام لگایا تھا کہ انھیں مبینہ طور پر تین مختلف موبائل فون نمبروں سے پیغمبرِ اسلام اور ان کی ازواج سے متعلق توہین آمیز پوسٹس بھیجی گئی ہیں۔

مدعی نے الزام عائد کیا تھا کہ ملزمان اپنے اس فعل سے ملک میں انتشار پیدا کر رہے ہیں اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کررہے ہیں۔

مدعی محمد خان نے ایف آئی اے سائبر کرائم کے حکام کو واٹس ایپ پوسٹوں کے پرنٹ بھی درخواست کے ساتھ مہیا کیے تھے۔

ایف آئی آر میں ایف آئی اے حکام کی طرف سے کی جانے والی قانونی کارروائی سے متعلق بھی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق ’دوران انکوائری مدعی درخواست کا موبائل فون بطور ثبوت قبضہ میں لیا گیا اور ایک ٹیکنیکل رپورٹ مرتب کی گئی جس کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مدعی کو تینوں موبائل فون نمبرز سے مبینہ گستاخانہ مواد بھجوایا گیا جبکہ دورانِ انکوائری تینوں موبائل فون نمبرز کا سبسکرائبر ریکارڈ بھی حاصل کیا گیا تھا۔‘

ایف آئی اے حکام کے مطابق ’15 جون 2022 کو مخبر سے اطلاع ملی کہ ایک موبائل فون پر واٹس اپ استعمال کرنے والا شخص لاہور میں موجود ہے جس پر چھاپہ مار کارروائی کر کے اسے گرفتار کر لیا گیا اور اس کے قبضے سے موبائل فون بھی برآمد کر لیا گیا۔‘

ایف آئی اے حکام کے مطابق جب اس موبائل فون سے واٹس اپ چیک کیا گیا تو اس میں مبینہ گستاخانہ مواد موجود پایا گیا۔ ’ملزم نے دورانِ تفتیش مبینہ طور پر اپنے دیگر دو ساتھیوں کی نشان دہی کی جو باقی دو نمبرز استعمال کر رہے تھے۔‘

سزا پانے والے افراد کے وکلا کیا کہتے ہیں؟

اس کیس میں موت کی سزا پانے والے مجرم کے وکیل چودھری اسلم گجر ایڈووکیٹ نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ شکایت کنندہ محمد خان نے ایک پراپرٹی ڈیلر کے ساتھ مل کر ایف آئی اے سائبر کرائم کی ملی بھگت سے طالبعلموں کو جھوٹے مقدمے میں پھنسایا ہے۔

وکیل صفائی کا کہنا ہے کہ ان کے مؤکل مسلمان ہیں اور پیغمبرِ اسلام، قرآن، پیغمبرِ اسلام کی ازواج اور دوسرے مسلمانوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ ان کے مؤکل کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے جس نے ایک نجی تعلیمی ادارے میں او لیول اور اے لیول پاس کیا اور اب وہ نجی یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔

وکیل صفائی نے الزام لگایا کہ شکایت کنندہ محمد خان اور ایک پراپرٹی ڈیلر 14 جون 2022 کو ان کے مؤکل کو پکڑ کر ایک نامعلوم مقام پر لے گئے اور یہ کہتے ہوئے رقم کا مطالبہ کیا کہ آپ اور آپ کی فیملی کا جاپان میں کاروبار ہے۔

وکیلِ صفائی کا کہنا تھا کہ دونوں افراد ان کے مؤکل کو لاہور کے سائبر کرائم تھانے لے گئے جہاں ایف آئی اے کے انکوائری افسر نے بھی ان کے مؤکل کو حوالات میں بند کر دیا۔

وکیلِ صفائی کے مطابق ’اگلے روز ریکارڈ میں ہیرا پھیری اور چھیڑ خانی کے بعد میرے مؤکل کے خلاف ایک جھوٹی ایف آئی آر درج کی گئی، شکایت کنندہ نے اپنی درخواست میں اپنا موبائل فون نمبر، موبائل کی تفصیل اور دیگر تفصیلات کا ذکر نہیں کیا۔‘

وکیل صفائی کہتے ہیں کہ ان کے مؤکل کے والد نے اعلیٰ حکام کو انصاف کے حصول کے لیے درخواست بھی دی لیکن شکایت کنندہ فریق اور انکوائری آفیسر بااثر افراد ہیں جس کی وجہ سے فریقین کی درخواست پر کیس لاہور سے گوجرانوالہ منتقل کر دیا گیا۔

’تمام پرائیویٹ اور سرکاری افسران من گھڑت ریکارڈ کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے رہے ہیں، مؤکل نے گستاخانہ مواد کو اپ لوڈ نہیں کیا۔‘

عمر قید کی سزا پانے والے نابالغ مجرم کے وکیل سید غیرت نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ان کا مؤکل بے قصور ہے۔

انھوں نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ شکایت کنندہ نے بددیانتی کے ساتھ اس کیس میں ان کے مؤکل کو پھنسایا ہے اور لڑکے کا مبینہ جرائم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں