نائیجیریا میں مسلح حملہ آوروں نے اسکول سے 287 طلبہ کو اغوا کر لیا

ابوجا (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو/اے پی/رائٹرز) نائجیریا کے شمال مغربی علاقے میں بندوق برداروں نے جمعرات کو ایک اسکول پر حملہ کرکے کم از کم 287 طلبہ کو اغوا کرلیا۔ اس مغربی افریقی ملک میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں بڑے پیمانے پر اغوا کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔

شمالی نائجیریا میں اسکولوں سے طالب علموں کا اغوا اب ایک عام بات ہے۔ سن 2014 کے بعد سے، جب شرپسندوں نے بورنو ریاست کے چیبوک گاوں میں ایک اسکول سے 200 سے زیادہ لڑکیوں کا اغوا کرلیا تھا، اغوا کی وارداتیں انتہائی تشویش کا موجب بن گئی ہیں۔

حالیہ برسوں میں نائجیریا کے شمال مغربی اور وسطی علاقوں میں اغوا کے متعدد واقعات ہو چکے ہیں۔ ان علاقوں میں درجنوں مسلح گروپ بھاری تاوان وصول کرنے کے لیے گاوں والوں اور مسافروں کو اکثر اپنا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

اغوا کے تازہ واقعہ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

مقامی لوگوں نے خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ جمعرات کے روز کدونا ریاست کے کوریگا قصبے میں واقع ایک سرکاری اسکول کو حملہ آوروں نے اس وقت گھیرے میں لے لیا جب صبح آٹھ بجے طلبہ اپنی پڑھائی شروع کرنے والے تھے۔

مقامی حکام نے قبل ازیں کہا تھا کہ حملے میں ایک سو سے زیادہ طلبہ کو یرغمال بنالیا گیا ہے۔ لیکن اسکول کے ہیڈماسٹر ثانی عبداللہی نے کدونا کے گورنر اوبا ثانی، جو واردات کے بعد اسکول کا معائنہ کرنے پہنچے تھے، کو بتایا کہ اسکول کے مجموعی طورپر 278 طلبہ اور طالبات لاپتہ ہیں۔ یہ قصبہ دارالحکومت سے تقریبا ً90 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعے ہے۔

گورنر نے مقامی لوگوں کو یقین دہانی کرائی کہ، “ہم ہر بچے کو واپس لائیں گے اور اس کے لیے ہم سکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔”

کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے

جمعرات کو ہونے والے حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔ حالانکہ اس کے لیے ان مسلح گروپوں کو مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے، جن میں بیشتر چرواہے ہیں اور بھاری تاوان وصول کرنے کے لیے ماضی میں بھی پرتشدد حملے کرتے رہے ہیں۔

واردات کے کئی گھنٹے بعد گورنر کے ساتھ سکیورٹی فورسز پہنچی اور تلاشی کی مہم شروع کی گئی۔ دوسری طرف متاثرہ والدین کسی امید افزا خبر سننے کے انتظار میں ہیں۔

فاطمہ عثمان نامی ایک خاتون، جن کے دو بچے اغوا ہونے والوں میں شامل تھے، نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا،”ہمیں نہیں معلوم کہ کیا کریں، ہم سب انتظار کررہے ہیں۔ اللہ ہماری مدد کرے۔”

جمعرات کے روز یہ حملہ اسی ہفتے شمال مشرقی نائجیریا میں شرپسندوں کے ایک اور حملے کے بعد ہوا ہے، جس میں 200 سے زائد افراد، جن میں بیشتر خواتین تھیں، کو اغوا کرلیا گیا تھا۔

تنازعات سے متاثرہ شمالی نائجیریا میں اکثر خواتین، بچوں اور طلبا کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا جاتا ہے اور بھاری تاوان ادا کرنے کے بعد ہی ان کو رہا کیا جاتا ہے۔

اغوا ایک وبائی صورت اختیار کرگئی ہے

شمالی نائیجریا میں مسلح حملہ آورں کے ذریعہ تاوان کے لیے اغوا ایک وبائی صورت اختیار کرگئی ہے، جس سے عام لوگوں کی روز مرہ کی زندگی اور اسکول جانے والے ہزاروں بچوں متاثر ہو رہے ہیں۔

والدین اور علاقے کے رہائشی اغوا کی وارداتوں کے لیے علاقے میں سکیورٹی کے فقدان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے نائجیریا کے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ طلبہ کی محفوظ واپسی کو یقینی بنائیں اور قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے کے اندر اغوا کے دو بڑے واقعات ملک میں سکیورٹی کے بدتر ہوتے بحران کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ پچھلے سال بھی تشدد کے واقعات میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔

گزشتہ برس نائجیریا کے صدر منتخب ہونے والے بولا ٹینوبو نے تشدد کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کی صورت حال میں اب تک کوئی قابل ذکر بہتری نہیں آئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں