پولیس اور ایف آئی اے صحافیوں پر حملوں کی تفتیش کی بجائے ملزمان کی سہولت کاری کر رہی ہے، سپریم کورٹ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے صحافیوں کو ایف آئی اے کی جانب سے جاری کردہ نوٹسز اور مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف کیس میں آج (پیر) ہونے والی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا ہے۔

تحریری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ میڈیا کو کسی صورت ہراساں کرنا ناقابل برداشت ہے کیونکہ پریس کی آزادی بنیادی حقوق میں شامل ہے۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ بادی النظر میں پولیس اور ایف آئی اے صحافیوں پر حملوں کی تفتیش کی بجائے سہولت کاری کر رہی ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ صحافی اسد طور کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر میں سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف شر انگیزی کی مہم چلانے کا الزام لگایا گیا، تاہم عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ کیا ایف آئی اے کو کسی جج یا رجسٹرار نے اس ضمن میں شکایت درج کروائی ہے؟ اس پر ایف آئی اے حکام نے اس کا جواب نفی میں دیا۔

حکمنامے کے مطابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر کے مندرجات کو اگر مان بھی لیا جائے تو یہ قابل دست اندازی جرم نہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ صحافی اسد طور کے خلاف ایف آئی آر میں درج سیکشن 9 اور 10 کا اس کیس میں اطلاق نہیں ہوتا۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ اٹارنی جنرل اس معاملے کو دیکھ کر حکومت کو ایڈوائز کریں۔ حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اسد طور کے خلاف ایف آئی آر مبہم ہے اور اس میں عائد کردہ دفعات سول سرونٹ سے متعلق ہیں۔

عدالت نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے ازخود نوٹس کیس کی مزید کارروائی 25 مارچ تک ملتوی کر دی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں