روسی جنگی جہازوں کیلئے’ڈراؤنا خواب‘ ثابت ہونیوالے یوکرین کے سمندری ڈرون جنگ کا پانسہ کیسے پلٹ رہے ہیں؟

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) وہ ایک تاریک رات تھی جب حملے کا آغاز ہوا۔ یوکرین کے سمندری ڈرون تیزی سے روسی جنگی بحری جہاز کے قریب آ رہے تھے۔

حملے سے کچھ ہی لمحے قبل روس کے گشت کرنے والے جہاز ’سرگئی کاتوف‘ کے عملے کے اراکین نے اُن کو قریب آتے دیکھ لیا مگر اُس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

روس کے جنگی جہاز پر نصب بڑی مشین گن کے ذریعے ان ڈرونز پر فائرنگ شروع کر دی گئی مگر اسی دوران یوکرینی ڈرونز نے ہدف بنا کر اس جہاز کو تباہ کر دیا۔

یوکرین کے سمندری ڈرونز نے گذشتہ چند مہینوں میں ’نیول وار فیئر‘ یعنی بحری جنگ میں ایک انقلاب برپا کیا ہے۔ یہ سمندری ڈرونز اب کُھلے سمندر میں اور یہاں تک کے نیوی کے اڈوں پر موجود روسی بحری جہازوں کا تعاقب کرتے نظر آتے ہیں۔

یوکرین کی ملٹری انٹیلیجنس ایجنسی کا ایک خفیہ یونٹ ’گروپ 13‘ گذشتہ ہفتے ’سرگئی کاتوف‘ نامی بحری جہاز کو تباہ کرنے کے آپریشن کا ذمہ دار تھا۔ بی بی سی کو اس گروپ کی کارروائیوں تک غیر معمولی رسائی دی گئی۔

’گروپ 13‘ کا قیام لگ بھگ ایک سال قبل عمل میں آیا تھا اور اس خفیہ یونٹ کا کہنا ہے کہ انھوں نے گذشتہ چند ماہ میں پانچ روسی بحری جہازوں کو تباہ کر کے ڈبویا جبکہ بہت سوں کو شدید نقصان پہنچایا۔

’گروپ 13‘ کے ایک کمانڈر (جنھوں نے بی بی سی سے درخواست کی کہ انھیں ان کے نام کی بجائے 13 کہہ کر پکارا جائے) کا کہنا ہے کہ ’سرگئی کاتوف‘ نامی جہاز اب تک کا سب سے مشکل ہدف تھا۔

’گروپ 13‘ کے ڈرونز نے ماضی میں دو بار اس روسی جہاز پر حملہ کیا اور اسے نقصان پہنچایا مگر وہ اسے مکمل تباہ نہیں کر سکے تاہم گذشتہ ہفتے اس جہاز پر کیے گئے تیسرے حملے میں کامیابی ملی اور یہ جہاز تباہ ہو گیا۔

’کمانڈر 13‘ ہمیں بحیرہ اسود کے ایک پرامن دکھائی دینے والے حصے میں لے گئے اور ہمیں اپنے یونٹ کے نیول ڈرونز کے آپریشن کے بارے میں بتایا۔

’دی ماگورا وی 5‘ نامی ڈرون اوپر سے ایک چپٹی سطح والی چھوٹی کشتی کی طرح دکھائی دیتا ہے۔

یوکرین کے ’کمانڈر 13‘ کا کہنا ہے کہ ’یہ (کشتی نما ڈرون) زیادہ گرمی کا اخراج نہیں کرتا، اس لیے اسے تھرمل کیمروں کی مدد سے ڈھونڈ پانا تھوڑا مشکل ہے۔ یہ پلاسٹک سے بنا ہوا ہے، اس لیے ریڈار بھی مشکل سے اس کا پتا چلا پاتے ہیں۔‘

یہ ڈرون یوکرین کی فوج نے خود بنایا اور اس کے سفر کرنے کی حد 800 کلومیٹر یعنی 500 میل بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ آسانی سے جزیرہ نما کریمیا اور یہاں تک کہ روسی ساحل تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ 250 کلو گرام تک ’پے لوڈ‘ (حملہ کرنے کے لیے بارودی مواد) لے جا سکتا ہے جو کسی بھی ’جنگی جہاز‘ کو ڈبونے کے لیے کافی ہے۔

اس کشتی نما ڈرون کا ریموٹ کنٹرول اُس جوہری بریف کیس کی طرح نظر آتا ہے جو ہالی ووڈ کی فلموں دیکھایا جاتا ہے۔ وہ بریف کیس جس میں جوہری ہتھیاروں کا بٹن ہوتا ہے اور فلموں میں وہ کسی عالمی رہنما کے ہاتھ میں نظر آتا ہے۔

اس ڈرون کو سیٹلائٹ لنک کے ذریعے یوکرین کے بحری اڈوں سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ کمانڈر 13 کے مطابق ’اگر آپ کے پاس انٹرنیٹ ہے، تو آپ دنیا کے کسی بھی حصے سے اس ڈرون کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ڈرون کا اہم کنیکشن ناکام ہونے کی صورت میں ’بیک اپ کنکشنز‘ بھی ہیں۔

’کمانڈر 13‘ تسلیم کرتے ہیں کہ روس کی فوج کے زیر استعمال الیکٹرانک جنگی نظام کسی بھی ڈیوائس کے سگنل جام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اُن کا دعویٰ ہے کہ یوکرین کے سمندری ڈرون اس مسئلے پر قابو پانے کے قابل ہیں تاہم انھوں نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ یہ سب کیسے ممکن ہے۔

ماگورا ڈرون 80 کلومیٹر فی گھنٹہ (50 میل فی گھنٹہ) کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے روسی جہاز کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس کی رفتار اور مختصر لمبائی (یعنی 6 میٹر) کی بدولت اسے تلاش کرنا مشکل ہے خاص طور پر رات کے وقت لہروں کے درمیان اس کی تلاش بہت مشکل ہو جاتی ہے۔

گولیوں سے بچنا

گذشتہ ہفتے ڈوبنے سے قبل روسی جہاز ’سرگئی کاتوف‘ پر سوار فوجی بھاری مشین گنز سے قریب آنے والے اس یوکرینی ڈرون کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن ان ڈرونز کو مارنا مشکل ہے کیونکہ وہ بہت چھوٹے اور لگ بھگ ناقابل تسخیر ہیں۔

خصوصی گولہ بارود کا استعمال جہاں روسی فوجیوں کو رات کے وقت ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے روشنی فراہم کرتا ہے، وہیں اس روشنی کو دیکھ کر یوکرین کے ڈرون آپریٹرز کو گولیوں سے بچنے میں بھی مدد مل جاتی ہے۔

کمانڈر 13 کے مطابق ’وہ ہمیں دکھاتے ہیں کہ گولہ کہاں سے آ رہا ہے، وہ کہاں جا کر لگے گا اور ہمیں اس سے بچنے کے لیے کس رخ پر جانا چاہیے۔‘

ماضی کے حملوں کی فوٹیج سے پتا چلتا ہے کہ ایک وقت میں کئی ڈرونز عموماً ایک حملے میں شامل ہوتے ہیں، جس سے ہدف کو نشانہ بنانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ان ڈرونز کی سمندر میں دشمن کے جنگی جہاز کو تلاش کرنے کی کارروائیاں کئی دن تک جاری رہ سکتی ہیں۔ آپریٹرز کو پورا وقت چوکنا رہنا ہوتا ہے۔

روسی جنگی جہاز ’سرگئی کاتوف‘ کی تباہی کا منظر

یوکرینی ڈرونز جنھوں نے روسی جنگی بیڑے کو خطرے میں ڈال دیا
اس جنگ میں بحری ڈرون کی مدد کی بدولت یوکرین کی کامیابی کا سلسلہ روس کے ’ایڈمرل ماکاروف‘ نامی جہاز پر سنہ 2022 میں کیے جانے والے حملے سے شروع ہوتا ہے۔ یہ آپریشن یوکرین کی خفیہ سروس ایس بی یو نے کیا تھا۔

اس نے گذشتہ سال مقبوضہ کریمیا اور روس کو ملانے والے ’کیرچ پل‘ اور روس کی بندرگاہ ’نووروسیسک‘ پر بھی ڈرون حملے کیے تھے۔

سنہ 2014 میں ماسکو کے کریمیا کے الحاق کے بعد یوکرین نے اپنا تقریباً پورا بحری بیڑا کھو دیا۔ اس کا واحد بچا ہوا فریگیٹ ’ہیٹ مین سہیداچنی‘ فروری 2022 میں بڑے حملے کے چند دن بعد ہی تباہ ہو گیا تھا۔

یوکرین اس کے باوجود بحیرہ اسود میں روس کے تسلط کی کوششوں کے خلاف مزاحمت کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

روس بحیرہ اسود میں ایک اندازے کے مطابق 13 ایمفیبیئس لینڈنگ بحری جہازوں میں سے پانچ سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ اس کے چار چھوٹے پیٹرولنگ جنگی طیاروں میں سے دو تباہ ہوئے یا انھیں نقصان پہنچا۔

تاہم یہ بحری ڈرون ہیں جنھوں نے روس کے بحیرہ اسود کے بحری بیڑے کو خاص طور پر کمزور بنا دیا ہے۔ مسلسل حملوں کے بعد ماسکو کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے بحری بیڑے کا مرکزی حصہ کریمیا سے واپس لے لے اور انھیں مزید مشرق کی طرف نووروسیسک کی طرف لے جائے اور وہاں بھی روسی جہاز یوکرین کے ڈرون کی پہنچ میں رہتے ہیں۔

اس کے نتیجے میں روسی جہاز یوکرین کے ساحل سے دور رہتے ہیں اور کھلے سمندر میں اپنا وقت کم گزارتے ہیں۔ یوکرینی بحریہ کے ترجمان دیمیترو پلیتینچک کا کہنا ہے کہ اب وہ بحیرہ اسود میں بحری جہازوں سے کلیبر کروز میزائل بہت کم فائر کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ آخری بار اسے فروری کے وسط میں فائر کیا گیا تھا اور ’اس سے پہلے، کئی مہینوں سے سمندر سے کوئی کروز میزائل لانچ نہیں ہوا تھا۔‘

خیال کیا جاتا ہے کہ بحیرہ اسود میں دس روسی کروز میزائل بردار جہاز ہیں، جن میں تین آبدوزیں بھی شامل ہیں۔ ان میں سے تقریباً سبھی اب نووروسیسک میں ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں