کوٹلی: پاکستانی فوج کے احمدی اہلکار سمیت دو افراد کی قبروں کی مبینہ بے حرمتی

لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی میں فوج کے ایک اہل کار سمیت دو افراد کی قبروں کی مبینہ طور پر بے حرمتی کا واقعہ پیش آیا ہے۔ مذکورہ افراد کا تعلق احمدی کمیونٹی سے بتایا جا رہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق دونوں قبروں پر نصب کتبوں کو توڑا گیا اور اس دوران مبینہ طور پر قبروں کی بے حرمتی بھی کی گئی۔

احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مذکورہ فوجی اہلکار 11 نومبر 1988 کو سیاچن کے محاذ پر جان کی بازی ہار گئے تھے۔ اُن کی والدہ بھی سن 2000 میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر مبینہ بھارتی فائرنگ سے ہلاک ہو گئی تھیں۔

ضلع کوٹلی کے ڈپٹی کمشنر چوہدری حق نواز کے مطابق 12 مارچ کو پیش آنے والے اس واقعے سے متعلق اُنہیں شکایت موصول ہوئی جس پر مقدمہ درج کر کے چھان بین کی جا رہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے جس کے بعد قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری حق نواز کا کہنا تھا کہ چند روز سے مسلمانوں اور احمدی کمیونٹی کے درمیان کچھ مسائل چل رہے ہیں جس دوران یہ شرارت کی گئی ہے۔

پاکستانی کشمیر میں احمدیوں کی قبروں کو نقصان پہنچانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ چند دن قبل سات مارچ اور آٹھ مارچ کی درمیانی شب ضلع کوٹلی کے اِسی علاقے کے ایک اور قبرستان میں مبینہ طور پر آٹھ احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی گئی اور وہاں موجود کتبوں کو اُکھاڑ دیا گیا تھا۔

رواں ماہ ضلع کوٹلی کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ایلیمینٹری اینڈ سکینڈری کی جانب سے ایک مراسلہ بھی جاری کیا گیا تھا۔

مراسلے میں کہا گیا تھا کہ گورنمنٹ آف پاکستان ایکٹ 1974 کے تحت احمدی غیر مسلم ہیں۔ لہذٰا کسی بھی احمدی استاد کو اسلامیات یا عربی پڑھانے کی اجازت نہ دی جائے۔

مراسلے میں مزید کہا گیا تھا کہ تمام تعلیمی ادارے اپنے اسٹاف میں موجود غیر مسلم اساتذہ کی تفصیل بھی دفتر میں جمع کرائیں۔

واضح رہے کہ احمدی کمیونٹی کے افراد خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ تاہم پاکستان کا آئین انہیں غیر مسلم قرار دیتا ہے۔

مقامی احمدی برادری کے مطابق پے در پے واقعات رونما ہونے سے کشمیر کے ضلع کوٹلی میں احمدی خوف کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

‘چند ماہ سے یہاں بھی منظم مہم چل رہی ہے’

ضلع کوٹلی میں احمدی برادری کے مقامی ذمے دار محمود احمد بتاتے ہیں کہ پاکستان کے زیرِ اتنظام کشمیر کا علاقہ بہت پرامن تھا۔ جہاں تمام مسالک اور تمام مذاہب کے لوگ پرامن طریقے سے اکٹھے رہتے تھے۔ مگر گزشتہ چند ماہ سے یہاں مقیم احمدی برادری کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کوتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جیسے پاکستان نے آئین کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ اُسی طرز پر چند سال قبل راجہ فاروق حیدر کی وزارتِ عظمٰی کے دور میں یہاں کی قانون ساز اسمبلی میں ایک بل کو منظور کرتے ہوئے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اِس بل کی منظوری کے بعد بھی پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں آباد احمدیوں کو کسی قسم کا کوئی خوف یا مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن گزشتہ چند ماہ سے اُن کے خلاف ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔

محمود احمد کے مطابق چھ ماہ میں بھابڑہ اور جٹاں کے علاقوں میں اُن کی دو عبادت گاہوں (بیوت الزکر) پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی گئی ہے اور تین قبرستانوں کے کتبے بھی توڑے گئے۔ اِسی طرح کوٹلی میں عرضی نویس احمدیوں کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔

محمود احمد بتاتے ہیں کہ حالیہ واقعے پر تو مقامی پولیس اور مقامی انتظامیہ نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ ماضی میں مختلف واقعات پر مقدمات درج ضرور ہوئے ہیں لیکن کبھی کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔

ڈی سی کوٹلی کے مطابق مقامی پولیس اور مقامی انتظامیہ مل کر مسلمانوں اور احمدیوں کے ساتھ بیٹھ کر ایک ضابطہ اخلاق تیار کر رہی ہے تاکہ مذہبی منافرت سے بچا جا سکے۔

پاکستان میں احمدی کمیونٹی کی جانب سے مذہبی آزادی نہ ملنے کی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔ تاہم حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملکی آئین کے مطابق مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں