افغانستان میں پاکستانی کارروائی کا نشانہ حافظ گل بہادر گروپ، جو ’گڈ طالبان‘ کے نام سے مشہور ہوا

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق پیر کو سرحد کے قریب افغانستان کی حدود میں دہشتگردوں کے خلاف انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر کارروائی میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد ہدف تھے جو ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستان میں متعدد حملے کرنے میں ملوث ہیں۔

دفتر خارجہ کے مطابق یہ دہشتگرد پاکستان کی سکیورٹی کے لیے سنگین خطرہ ہیں اور یہ تسلسل سے پاکستان میں اپنی دہشتگرد کارروائیوں کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ پیر کی صبح افغان طالبان نے کہا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی، جس میں خواتین اور بچوں سمیت آٹھ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں متحرک بیشتر گروپ ٹی ٹی پی میں ضم ہو چکے ہیں لیکن چند ایک گروپ اب بھی ٹی ٹی پی کی چھتری کے نیچے نہیں آئے، جن میں حافظ گل بہادر گروپ بھی شامل ہے۔

شمالی وزیرستان میں شدت پسند تنظیموں میں طالبان کے حافط گل بہادر گروپ کی اپنی ایک اہمیت رہی ہے۔

’گُڈ طالبان‘ کے نام سے مشہور

شمالی وزیرستان میں سنہ 2014 میں بڑا فوجی آپریشن شروع کیا گیا تھا جسے آپریشن ’ضرب عضب‘ کا نام دیا گیا تھا۔

اس آپریشن سے پہلے حافظ گل بہادر گروپ حکومت کا حمایتی گروپ سمجھا جاتا تھا اور ایسی اطلاعات تھیں کہ یہ گروپ طالبان کے اندر پاکستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کے خلاف تھا۔

اس گروپ کے بارے میں تجزیہ کار یہی کہتے آئے ہیں کہ یہ ’گُڈ طالبان‘ تھے۔

سنہ 2022 میں جب ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا آغاز کیا جا رہا تھا تو ان دنوں میں طالبان کے حافظ گل بہادر گروپ کے ساتھ بھی بات چیت کی خبریں سامنے آئی تھیں اور ایک خبر یہ بھی تھی کہ شمالی وزیرستان کی حد تک جنگ بندی کا اعلان کیا گیا لیکن اس بارے میں مزید کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی تھی۔

یاد رہے کہ اکتوبر2021 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ طالبان کے مختلف دھڑوں سے بات چیت کی جا رہی ہے۔

اس میں ایک گروپ حافظ گل بہادر کا بھی تھا۔

خبر کچھ یوں سامنے آئی تھی کہ شمالی وزیرستان مسلح گروپ شوریٰ مجاہدین نے یکم اکتوبر سے علاقے میں 20 دن کے لیے فائر بندی کا اعلان کر دیا اور کہا کہ اگر حکومت کے ساتھ بات چیت میں کامیابی ہوئی تو فائر بندی میں توسیع کی جا سکتی ہے۔

اس بیان کے بعد ٹی ٹی پی نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ کہا تھا کہ ان کی اپنے دھڑوں میں بات چیت جاری ہے۔ شوریٰ مجاہدین ٹی ٹی پی میں ضم نہیں ہوئے ہیں۔

اس جنگ بندی کے اعلان کے بارے میں ذرائع نے بتایا تھا کہ حافظ گل بہادر کے گروپ شوریٰ مجاہدین کے سرکردہ رہنما صادق نور اور صدیق اللہ نے فائر بندی کا فیصلہ کیا تھا۔

شمالی وزیرستان میں متحرک حافظ گل بہادر گروپ اس وقت منظر عام پر آئے جب حافظ گل بہادر نے بیت اللہ محسود کی سربراہی میں قائم کالعدم تنظیم تحریک طالبان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

بیت اللہ محسود جب سنہ 2007 میں تنظیم کے سربراہ مقرر ہوئے تو اس وقت حافظ گل بہادر کو شمالی وزیرستان میں نائب امیر مقرر کیا گیا تھا۔

ایسی اطلاعات ہیں کہ حافظ گل بہادر کو ٹی ٹی پی کی پالیسیوں خاص طور پر پاکستان کے اداروں پر حملوں سے اختلاف تھا۔ حافظ گل بہادر افغانستان میں روس کے حملے کے بعد مجاہدین کے ساتھ جنگ کا حصہ تھے۔

حافظ گل بہادر بنیادی طور پر اتمانزئی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور انھوں نے سنہ 2001 میں 4000 رضا کاروں پر مشتمل ایک فورس قائم کی تھی۔

حافظ گل بہادر گروپ ماضی میں پاکستان حکومت کی زیادہ مخالفت میں نہیں رہا لیکن شمالی وزیرستان میں جون سنہ 2014 میں آپریشن ’ضرب عضب‘ شروع ہوا جس کے بعد حافظ گل بہادر اور ان کا گروہ غیر فعال ہو گیا تھا۔

اس آپریشن میں حکومت نے متعدد شدت پسندوں کی ہلاکت کے دعوے بھی کیے تھے اور کہا تھا کہ یہ علاقہ اب شدت پسندوں سے صاف کر دیا گیا ہے۔

مذاکرات اور اختلافات

اگرچہ قبائلی علاقوں میں بر سر پیکار شدت پسندوں کے ساتھ حکومت نے مختلف معاہدے کیے اور انھیں تحریر میں بھی لایا گیا جن میں نیک محمد اور بیت اللہ محسود کے ساتھ کیے گئے معاہدے اہم ہیں۔ یہ معاہدے ہوئے، پھر خلاف ورزیاں ہوئیں اور یوں یہ بندھن بھی ٹوٹ گئے۔

اس کے ساتھ کچھ غیر تحریری معاہدے بھی کیے گئے جن میں حکومت کا حافظ گل بہادر گروپ کے ساتھ معاہدہ شامل تھا۔

حافظ گل بہادر شوریٰ مجاہدین گروپ کے سربراہ تھے اور ان پر افغانستان میں حملوں کا الزام لگتا تھا۔

ان کے بارے میں سلیم شہزاد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ ان ہی گروپس میں سے ایک ہیں جن کے لیے ’گڈ طالبان‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی رہی ہے۔

حقانی نیٹ ورک کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات تھے اور ان کی طرح یہ بھی امریکی افواج کے خلاف کارروائیاں کر رہے تھے۔

پاکستان نے ان سے معاہدہ کیا کہ وہ پاکستانی فوج اور شہریوں کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے۔ یہ معاہدہ سنہ 2008 میں بھی دوبارہ کیا گیا اور اس گروہ نے فوج کے خلاف کارروائیاں روک دیں۔

سنہ 2014 میں جب پاکستان نے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا تو حافظ گل بہادر گروپ نے اسے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب وہ ’افغانستان میں اپنی کارروائیاں روک رہے ہیں اور پہلے پاکستانی فوج سے نمٹیں گے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں