گوادر کمپلیکس میں فائرنگ کے تبادلے میں 8 دہشت گرد اور سکیورٹی فورسز کے 2 اہلکار ہلاک، آئی ایس پی آر

راولپنڈی (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں پورٹ اتھارٹی کالونی میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تمام آٹھ دہشتگرد فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ جبکہ آپریشن کے دوران دو سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا ہے کہ 20 مارچ کو ’آٹھ دہشت گردوں کے ایک گروہ نے گوادر میں پورٹ اتھارٹی کالونی میں داخل ہونے کی کوشش کی جسے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے ناکام بنا دیا۔ سکیورٹی پر تعینات فورسز نے فوری طور پر جوابی کارروائی کی اور دہشت گردوں کو مؤثر طریقے سے روکا۔‘

آئی ایس پی آر کے مطابق ’فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں‘ تمام آٹھ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔

’مارے گئے دہشت گردوں کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد بھی برآمد ہوا ہے۔‘

مزید یہ بتایا گیا کہ فائرنگ کے شدید تبادلے کے دوران دو سپاہی بہار خان اور عمران خان بھی ہلاک ہوئے۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی سکیورٹی فورسز قوم کے شانہ بشانہ بلوچستان کے امن و استحکام کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں اور ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔‘

واضح رہے کہ گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس میں اہم سرکاری دفاتر ہیں۔ اس کمپلیکس میں واپڈا، الیکشن کمیشن کے علاوہ سکیورٹی سے متعلقہ اداروں کے دفاتر بھی ہیں۔

گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر حملے کی ذمے داری کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی مجید بریگیڈ نے قبول کی ہے۔

یہ رواں برس دوسرا موقع ہے کہ 2011 میں تشکیل پانے والے مجید بریگیڈ کا نام بلوچستان میں کسی بڑے حملے میں سامنے آیا ہے۔

اس سے قبل 29 اور 30 جنوری 2024 کی درمیانی شب خودکش بمباروں سمیت متعدد شدت پسندوں مچھ شہر میں تھانے پر حملہ کیا تھا جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران تین خودکش بمباروں سمیت 11 دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

یہ انتہا پسند گروپ نیا نہیں بلکہ گذشتہ چند سالوں میں اس کی کارروائیوں میں شدت دیکھنے کو ملی ہے جن میں اکثر و بیشتر پاکستان میں کام کرنے والے چینی اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔

2022 میں کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں ہونے والے اس دھماکے کی ذمہ داری بھی مجید بریگیڈ نے ہی قبول کی تھی جس میں تین چینی اساتذہ سمیت کم از کم چار افراد ہلاک اور تین زخمی ہو گئے تھے۔

مجید بریگیڈ اور اس کے فدائین کا نام پہلی بار اس حملے کے بعد سامنے آیا تھا جب کوئٹہ میں سردیوں کی ایک شام کو ارباب کرم خان روڈ پر ایک کار ایک گھر کے باہر آ کر رکی اور اس کے بعد ایک شدید دھماکہ ہوا۔ یہ گھر سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل کا تھا اور یہ واقعہ 30 دسمبر 2011 کو پیش آیا تھا۔

اس حملے میں شفیق مینگل محفوط رہے جبکہ ان کے محافظوں سمیت 10 افراد ہلاک اور 23 زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی اور کہا کہ مجید بریگیڈ کی جانب سے فدائی نوجوان درویش نے یہ حملہ کیا تھا۔

اس کے بعد اس بریگیڈ کا کوئی واضح حملہ نظر نہیں آتا۔

تقریباً سات سال کے بعد اگست 2018 کو بلوچستان کے سونے اور تانبے کے ذخائر والے ضلع چاغی کے صدر مقام دالبندین میں ایک ٹرک سامنے سے آنے والی بس جس میں چینی انجنیئرز سوار تھے، ٹکرا گیا جس کے نتیجے میں تین چینی انجنیئروں سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے۔

بی ایل اے کی مجید بریگیڈ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور بتایا کہ حملہ آور نوجوان ریحان تھا جو مجید بریگیڈ کے سربراہ اسلم استاد عرف اسلم اچھو کا بیٹا تھا۔

اسی سال یعنی 2018 کو کراچی میں نومبر میں چین کے سفارتخانے پر حملہ کیا گیا، جس میں چار حملہ آور پولیس مقابلے میں مارے گئے، اس حملے کی ذمہ داری بھی مجید بریگیڈ نے ہی قبول کی۔

2019 میں اس گروپ نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مرکز گوادر شہر میں پی سی ہوٹل پر حملہ کیا، جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے جبکہ 3 حملہ آور مارے گئے۔ مجید بریگیڈ نے اس کارروائی کو فدائی مشن قرار دیا۔

اس کے اگلے سال جون 2020 میں کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا گیا جہاں چار حملہ آور مارے گئے، اس حملے کی ذمہ داری بھی مجید بریگیڈ نے ہی قبول کی۔

نوشکی اور پنجگور میں فروری 2022 میں حملوں کو مجید بریگیڈ نے فدائی حملے قرار دیا تھا۔ سنہ 2018 سے اب تک ایسے دس سے زیادہ حملے ہو چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں