یمن جنگ کی وجہ سے 45 لاکھ بچے تعلیم سے محروم

صنعاء (ڈیلی اردو/اے ایف پی) ایک تازہ رپورٹ کے مطابق یمن کے بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل پر فوری توجہ نہ دی گئی تو جنگ سے تباہ حال اس ملک کی پوری نسل کا دنیا سے پیچھے رہ جانے کا خطرہ ہے۔

یمن کی دس سالہ ہولناک جنگ نے یمنی بچوں کی تعلیم پر بھی خوفناک اثرات مرتب کیے ہیں۔ سیو دا چلڈرن نامی فلاحی تنظیم نے پیر کے روز بتایا کہ یمن میں ساڑھے چار ملین بچے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اپریل 2022 میں جنگ بندی کے بعد نسبتاً پرامن رہنے کے باوجود جزیرہ نما عرب کے اس غریب ترین ملک میں روزمرہ کی زندگی غیر یقینی کا شکار ہے۔

اس گروپ نے اپنی رپورٹ میں کہا، ”ہر پانچ میں سے دو یا 4.5 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں جبکہ بے گھر ہونے والے بچوں کا اسکول چھوڑنے کا امکان ان کے ساتھیوں کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہے۔‘‘

رپورٹ میں مزید کہا گیا، ”سروے میں شامل ایک تہائی خاندانوں میں کم از کم ایک ایسا بچہ ضرور ہے، جس نے اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے باوجود پچھلے دو سالوں میں اسکول چھوڑ دیا ہے۔‘‘

یمن کا تنازع اس وقت شروع ہوا تھا، جب ستمبر 2014 میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔

اس تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ کے دوران معاشی عدم تحفظ کے سبب یمن کے 33 ملین باشندوں میں سے دو تہائی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ 4.5 ملین افرا بے گھر ہوئے ہیں۔

یمن میں سیو دی چلڈرن کے عبوری کنٹری ڈائریکٹر محمد منا نے کہا، ”اس فراموش شدہ تنازعے کے نو سال بعد ہم تعلیمی ایمرجنسی کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا ، ”ہمیں اب ایک ویک اپ کال دینی چاہیے اور ان بچوں اور ان کے مستقبل کی حفاظت کے لیے ابھی سے کام کرنا چاہیے۔‘‘

رپورٹ کے مطابق سروے میں شامل 14 فیصد خاندانوں نے اپنے بچوں کے سکول چھوڑنے کی وجہ عدم تحفظ کو بھی قرار دیا ہے۔

لیکن ایک بڑی اکثریت تقریباً 44 فیصد نے معاشی وجوہات کی طرف اشارہ کیا، خاص طور پر انہیں اپنی آمدن میں سپورٹ کی ضرورت ہے، جس کی وجہ سے وہ بچوں کو اسکول نہیں بھیجتے۔ 20 فیصد خاندانوں نے کہا کہ وہ بچوں کے اسکول کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔

اس فلاحی ادارے نے مزید کہا ہے، ”اس تعلیمی بحران کے یمن کے بچوں اور ان کے مستقبل پر اثرات بہت گہرے ہیں۔ اس سلسلے میں فوری مداخلت یا اقدامات نہ ہوئے تو پوری نسل کا دنیا سے پیچھے رہ جانے کا خطرہ ہے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں