بنگلہ دیش 1971 کی ہلاکتوں کو نسل کشی تسلیم کروانے کی کوشش کیوں کر رہا ہے؟

ڈھاکا (ڈیلی اردو/وی او اے) اس ماہ ایک ایسے وقت میں جب بنگلہ دیش 26 مارچ کو پاکستان سے اپنی آزادی کی 53 ویں سالگرہ منانے کی تیاری کر رہا ہے، ڈھاکہ میں ہونے والی تقریبات پر اکثر 25 مارچ 1971 کی رات سے رونما ہونے والے سانحے کی یادیں چھائی رہتی ہیں۔

بنگلہ دیش کی حکومت 25 مارچ سے 16 دسمبر 1971 کے درمیان پاکستانی فوج کی جانب سے کی گئی کارروائی کو بین الاقوامی سطح پر ‘نسل کشی’ کے طور پر تسلیم کروانے کی کئی برس سے کوشش کر رہی ہے۔

ڈھاکہ میں حکام کا کہنا ہے کہ 1971 میں 9 ماہ کی جنگ کے دوران پاکستانی فوجیوں کے ہاتھوں 30 لاکھ بنگالی مارے گئے اور 2 لاکھ سے زیادہ خواتین کا ریپ کیا گیا۔۔ لیکن پاکستان اور کچھ غیر جانبدار محققیں۔ان اعداد و شمار سے اختلاف کرتے ہیں۔

حمود الرحمن کمیشن

پاکستان کی حکومت نے 16 دسمبر 1971کو جنگ کے خاتمے کے فوراً بعد، جب پاکستانی فوج نے ڈھاکہ میں ہندوستان اور بنگلہ دیش کی مشترکہ فورس کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے، چیف جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں ایک عدالتی تحقیقات کا تقرر کیا تھا۔

کمیشن نے نتیجہ اخذ کیا کہ جنگ میں تقریباً 26 ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ غیر جانبدار محققین کےتخمینے بھی ایک دوسرے سےمختلف ہیں۔ جن میں یہ تعداد 3 لاکھ سے 10 لاکھ تک بتائی گئی ہے۔

تاہم اس بارے میں کچھ زیادہ اختلاف نہیں ہے کہ 25 مارچ 1971 کی رات سے لے کر جنگ کے خاتمے تک پاکستانی فوج کے اقدامات سے اتنی ہلاکتیں اور تباہی ہوئی تھی کہ اس وقت کے مشرقی پاکستان سے مبینہ طور پرایک کروڑ سے زیادہ افراد کو بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔

اس وقت کی پریس رپورٹوں میں ہندو اقلیت اور بنگالی دانشوروں اور پیشہ ور افراد پر حملوں کا بھی ذکر تھا۔ پچھلی نصف صدی سے، بنگلہ دیش نے یہ بات برقرار رکھی ہے کہ، مشرقی پاکستان میں جو کچھ پاکستانی فوج نے کیا، وہ نسل کشی کے مترادف تھا-

دوسری طرف اس وقت کے مشرقی پاکستان میں موجود کچھ افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ حالات ان لوگوں کے لیے بھی زیادہ اچھے نہیں تھے جو مغربی پاکستان کے حامی تھے۔

پاکستان کی وفاقی اردو یونیورسٹی میں شعبۂ سیاسیات کے سابق پروفیسر سید شاہد ہاشمی، بنگلہ دیش کے قیام کے دنوں اور جنگ کے زمانے میں ڈھاکہ میں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تھے۔

سقوط ڈھاکہ سنہ 1971 کے موضوع پر وائس آف امریکہ اردو سروس کی خصوصی دستاویزی رپورٹس کے ایک حصے میں گفتگو کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ جب بنگلہ دیش کی آزادی کا نعرہ لگایا گیا تو ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ہم اپنے گلی محلوں میں خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے تھے۔

’’ ہم جو غیر بنگالی تھے، اپنے محلوں میں خوفزدہ تھے۔ ہمارے گھر کام کرنے والی خاتون نے ہمیں آ کر کہا کہ آپ کا جو گھر ہے وہ ہمارا ہو جائے گا‘‘۔

اقوام متحدہ نسل کشی کی تعریف ان لفاظ میں کرتی ہے،”ایک قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کیا جانے والا جرم،”

بنگلہ دیش کا موقف ہے کہ پاکستانی فوج کا مقصد، بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور بے دخلی کی مہم کے ذریعےبنگالی ثقافت کو مٹانا اور اس وقت کےمشرقی پاکستان میں ہندو آبادی بے دخل کرناتھا۔

گزشتہ کئی سالوں سے ڈھاکہ حکومت 1971 کے واقعات کو نسل کشی کے طور پر بین الاقوامی سطح پر پہچانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اب تک اس میں کامیابی نہیں ہو سکی۔

اس بارے میں مختلف بیانیے

امریکہ میں مقیم اسکالر اکبر ایس احمد 1971 میں اس وقت کے مشرقی پاکستان میں بطور اسسٹنٹ کمشنر تعینات تھے۔ وہ ان حالات و واقعات کے عینی شاہد ہیں جو بنگلہ دیش کے قیام کا سبب بنے۔ انہیں اس دور کی کئی اہم شخصیات سے براہِ راست ملاقات اور گفتگو کا موقع بھی ملا۔ وائس آف امریکہ کے نمائندے عبدالعزیز خان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے 50 برس قبل کی یادیں اور مشاہدات بیان کیے۔ (تفصیل ذیلی وڈیو میں)

سنہ 1971میں مشرقی پاکستان میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے نمائندے آرنلڈ زایٹ لین کہتے ہیں کہ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں اکہتر کی جنگ میں شریک پاکستانی بریگیڈئیرز نے خود تسلیم کیا ہے کہ بعض پاکستانی کمانڈرز کے اقدامات، جنہوں نے ’جنگی جرائم‘ کی اجازت دی، انتہائی مجرمانہ تھے۔

تاہم، سنہ71کی جنگ کے بارے میں ایک متنازعہ قرار دی جانے والی کتاب ’ڈیڈ ریکننگ‘ کی بھارتی مصنفہ شرمیلا بوس نے’اردو وی او اے‘ سے انٹرویو میں کہا تھا کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت میں قوم پرستی پر مبنی دیومالا وجود میں آچکی ہے، جو ضروری نہیں کہ درست بھی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی کتاب کا سب سے بڑا کام یہ ہوگا کہ بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے واقعات پر بحث دوبارہ شروع ہو جائے۔

وہ کہتی ہیں کہ اکہتر کے واقعات میں پاکستانی فوج پر نسل کشی اور جنسی زیادتیوں کے الزامات بڑھا چڑھا کر بیان کئے گئے۔ جبکہ، ان زیادتیوں کا ذکر جان بوجھ کرچھپایا گیا، جو اردو بولنے والی آبادی کے ساتھ بنگلہ دیش میں کی گئیں۔

بین الاقوامی شناخت کی کمی کو امریکہ کے ساتھ ساتھ دوسری جگہوں پر بھی نوٹ کیا گیا۔ 2016 میں، امریکی مصنفہ Lorraine Boissoneault نے اسمتھ سونین میگزین میں لکھا،

“روانڈا کی نسل کشی، یا ہولوکاسٹ، یا یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد ہونے والے قتل عام کے برعکس، بنگلہ دیش میں نسل کشی بڑی حد تک عوامی آگہی کا حصہ نہیں ہے۔ با وجود اس کے کہ سب سے بڑی بتائی جانے والی تعداد 30 لاکھ ہے۔”

اپنے کیس کو بڑھانے کے لیے، بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ نے 2017 میں ایک قرارداد منظور کی، جس میں 25 مارچ کو ‘نسل کشی کے یادگاری دن’ کے طور پر نامزد کیا گیا۔ پارلیمنٹ کے اراکین نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ان مظالم پر عالمی برادری کی توجہ کے لیے کوششیں تیز کرے۔

بنگلہ دیش حکومت کی کوششوں کا کچھ نتیجہ نکلا ہے۔ 14 اکتوبر 2022 کو، امریکی کانگریس کے اراکین اسٹیو چبوٹ اور آر کھنہ نے ایک قرارداد پیش کی جس کا عنوان تھا، “1971 کی بنگلہ دیش کی نسل کشی کو تسلیم کرنا۔”

اس قرارداد میں، جو ابھی منظور نہیں ہوئی حکومت پاکستان سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس میں اپنے کردار کو تسلیم کرے، بنگلہ دیش کی حکومت اور عوام سے باضابطہ معافی مانگے، اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ایسے کسی بھی مجرم کے خلاف قانونی کارروائی کرے جو ابھی زندہ ہے۔”

پاکستان نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ اس طرح کے مظالم ہوئے ہیں اور اس لیے کبھی معافی نہیں مانگی۔ اس نے بنگلہ دیش کی حکومت کو ناراض کیا ہے، خاص طور پر شیخ حسینہ کی سربراہی میں موجودہ حکومت، جن کے والد شیخ مجیب الرحمان نے ملک کو آزادی تک پہنچایا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں