چھ گھنٹے تک دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں، تربت میں اپنی نوعیت کا پہلا جبکہ رواں سال ہونے والا تیسرا بڑا حملہ

کوئٹہ (ڈیلی اردو/ بی بی سی) تربت ایئرپورٹ اور نیول بیس کے قرب و جوار کی آبادی میں اس حملے کی وجہ سے شدید خوف وہراس پھیل گیا۔ حملے کے وقت تربت کے رہائشی مبارک بلوچ حملے کی مقام سے اندازاً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر دوستوں کے ساتھ ایک ہوٹل پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔

مبارک بلوچ نے فون پر بتایا کہ دس بجے کے قریب دھماکوں کے ساتھ شدید فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا، جس سے ہوٹل پر بیٹھے تمام لوگ خوفزدہ ہوگئے کیونکہ فائرنگ اور دھماکوں کی شدت بہت زیادہ تھی۔

مبارک بلوچ نے بتایا کہ اس سے لوگوں میں بہت زیادہ خوف و ہراس پھیل گیا اور ہوٹل وغیرہ جہاں بعض لوگ سحری تک دوستوں کے ساتھ بھیٹتے ہیں فوراً بند ہوگئے اور لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے۔

انھوں نے بتایا کہ نیول بیس اور ایئرپورٹ کی جانب سے فائرنگ کا سلسلہ صبح چھ تک جاری رہا۔ اسی طرح خواتین، بچوں سمیت قرب و جوار کے لوگوں کے لیے رات بھر سونا ممکن نہیں ہوسکا۔

واضح رہے کہ پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ بیان کے مطابق سکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کی تربت میں پاکستان بحریہ کے ائیر بیس پی این ایس صدیق پر حملے کی کوشش ناکام بنا دی ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس حملے میں فورسز نے اثاثوں کی حفاظت یقینی بناتے ہوئے بروقت اور مؤثر جواب سے حملہ ناکام بنایا۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ائیربیس پی این ایس صدیق تربت پر حملہ 25 اور 26 مارچ کی درمیانی شب کیا گیا، جس کے بعد بحری دستوں کی مدد کے لیے ارد گرد موجود سکیورٹی فورسز کو فوری متحرک کیا گیا، مسلح افواج کے مؤثر جواب نے مشترکہ کلیئرنس آپریشن کیا، مشترکہ کلیئرنس آپریشن میں چاروں دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔

حملے کے مقام کے قریب ایک اور رہائشی احد بلوچ نے بتایا کہ جہاں ایک طرف فائرنگ اور دھماکوں کا سلسلہ جاری تھا وہاں رات کو ہیلی کاپٹروں کی نیچے پرواز کی وجہ سے بھی لوگوں کی نیند متاثر ہوا۔

انھوں نے بتایا کہ ہیلی کاپٹروں کی پرواز سے شور زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی سرچ لائٹس کی وجہ سے لوگوں کے لیے گھروں سے نکلنا مشکل ہو رہا تھا۔

احد بلوچ کا کہنا تھا کہ صبح کو قرب و جوار کے تمام علاقوں کو سیل کیا گیا تھا جس کی وجہ ان علاقوں کے سرکاری اور نجی سکولوں میں پڑھنے والے بچے سکول بھی نہیں جاسکے جبکہ لوگ اپنے کام کے مقامات پر نہیں جاسکے۔

تربت ایئرپورٹ کے قریب ایک رہائشی جمیل بلوچ نے بتایا کہ حملے کے بعد 45 منٹ تک مسلسل فائرنگ اور دھماکوں کا سلسلہ جاری رہا۔

انھوں نے کہا کہ سب سے پہلے دھماکوں اور فائرنگ کا سلسلہ سوا دس بجے کے قریب شروع ہوا اور پھرشدید فائرنگ کے ساتھ دھماکوں کا سلسلہ 11 بجے تک مسلسل جاری رہا۔

انھوں نے بتایا کہ اس دوران متعدد دھماکے ہوئے تاہم 11 بجے کے بعد کچھ دیر کے لیے خاموشی ہوئی لیکن اس کے بعد دو تین زوردار دھماکے ہوئے، جن کی شدت پہلے والے دھماکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان دو تین دھماکوں کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ہمیں یوں لگا جیسے کہ یہ ہمارے گھر کے بالکل قریب ہوئے۔

اس شہری نے اس حملے کے حوالے سے جو ویڈیوز بھیجی ہیں ان میں بھی فائرنگ کی شدید آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ جب رات کو پونے دو بجے ان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس وقت خاموشی ہے اور فائرنگ کا سلسلہ بند ہوگیا ہے تاہم ان کے مطابق تین بجے کے بعد دوبارہ فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا، جو کہ سحری کے بعد تک جاری رہا۔

تربت کے سینیئر صحافی اسد بلوچ نے بتایا کہ تربت شہر میں معمولات زندگی جاری و ساری ہیں لیکن اس حملے کے باعث عام دنوں کی بہ نسبت شہر میں لوگوں کی تعداد کم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہر میں سکیورٹی اہلکار زیادہ ہیں اور ایئرپورٹ کی جانب جانے والے راستوں کو سیل کردیا گیا ہے جبکہ شہر میں ٹریفک بھی معمول سے کم ہے۔

تربت میں اپنی نوعیت کا پہلا جبکہ رواں سال ہونے والا تیسرا بڑا حملہ

تربت ایران سے متصل سرحدی ضلع کیچ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ تربت سمیت ضلع کی تمام آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے۔ اگرچہ بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح کیچ اور مکران ڈویژن کے دو دیگر اضلاع کی طرح مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے لیکن مکران ڈویژن میں قبائلی نظام نہیں ہے۔

کیچ میں بلوچستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں تعلیم کی شرح بھی بہت زیادہ ہے جبکہ بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد سے کیچ کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جو کہ شورش سے زیادہ متاثر ہیں۔

گذشتہ ڈیڑھ دہائی سے زائد کے عرصے میں تربت اور ضلع کیچ کے دیگر علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کمی و بیشی کے ساتھ جاری ہیں لیکن کسی حساس سرکاری تنصیب پر اپنی نوعیت کا پہلا حملہ ہے۔

اس سے قبل نوعیت کے حملے کالعدم بی ایل اے کی مجید بریگیڈ کی جانب سے پنجگور اور نوشکی میں فروری 2022 میں ایف سی کے ہیڈکوارٹرز پر کیئے گئے تھے۔

حکام کا کہنا ہے کہ تربت میں نامعلوم مسلح حملہ آوروں نے نیول بیس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ کوئٹہ میں ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے بی نی سی کو بتایا کہ حملہ آور ایئرپورٹ کے سویلین سائیڈ سے داخل ہوئے لیکن سیکورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرکے ان کی نیول ایئر بیس میں داخلے کی کوشش ناکام بنا دی۔

تربت میں جس علاقے میں یہ حملہ کیا گیا وہ سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم علاقہ ہے۔

اس علاقے میں تربت کے ایئرپورٹ کے علاوہ نیول بیس صدیق اور اس کے ساتھ نیول ایئر بیس بھی موجود ہے۔ سرکاری حکام کے مطابق یہ تمام تنصیبات ایک ساتھ نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر ہیں۔

تربت میں یہ نیول ایئربیس سنہ 2017 میں آپریشنل ہوا تھا، جس کا مقصد بحیرہ عرب میں مزید بحری استحکام حاصل کرنا اور سی پیک کے منصوبوں کے تحفظ کو مستحکم کرنا تھا۔

اگرچہ رواں سال تربت میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا لیکن کالعدم بی ایل اے کی مجید بریگیڈ کی جانب سے بلوچستان میں تیسرا بڑا حملہ تھا۔ اس سے قبل 20 مارچ کو تربت سے متصل ضلع گوادر کے ہیڈکوارٹر گوادر شہر میں گوادر پورٹ کمپلیکس اتھارٹی پر جبکہ جنوری کے آخر میں ضلع کچھی میں درہ بولان میں واقع مچھ شہر میں ایک بڑا حملہ کیا گیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں