شامی پناہ گزین ترکی چھوڑنے پر مجبور کیوں؟

دمشق (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو/اے ایف پی) ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ترکی شمالی شام میں سنگین انسانی صورتحال سے دوچار ہونے کے باوجود ہزاروں شامی باشندوں کی ملک بدری چاہتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی جمعرات کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی شام میں سنگین انسانی صورتحال کے باوجود ترکی ہزاروں شامی باشندوں کو یا تو ملک بدر کررہا ہے یا ان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر ترکی کے زیر قبضہ شامی علاقوں میں چلے جائیں گے۔

شام کے شمال میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے انقرہ کے خلاف یہ ہیومن رائٹس واچ کی جاری کردہ متعدد رپورٹوں میں تازہ ترین رپورٹ ہے۔

ہیومین رائٹس واچ کے ویب پیج پر بتایا گیا ہے کہ تل ابیض میں واپس آنے والے شامیوں کی تعداد، ترکی کے زیر قبضہ شمالی شام کے ایک دوردراز ضلع میں جنوری تا جون دو ہزار تئیس کے درمیان اس سے دگنی ہوگئی جتنی کہ اس سے ایک سال قبل یعنی دو ہزار بائیس کے انہی مہینوں کے درمیان تھی۔

شام کے شمال میں ترکی کے ساتھ امریکہ اور روس کی فوجیں بھی تعینات ہیں۔ جنہوں نے کئی دراندازیوں کے بعد اب زمین کے کچھ حصے پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔

انقرہ تاہم شمالی شام میں اپنی افواج اور اتحادی گروپوں پر ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے لگائے گئے جرائم کے الزامات کو مسترد کر چکا ہے۔

شمالی شام کے جلا وطنوں کے ساتھ ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ میں کہا، ”ترک فورسز نے 2017ء کے بعد سے اب تک ہزاروں شامی پناہ گزینوں کو گرفتار کیا اور ملک بدر کیا۔ اکثر ان سے زبردستی کی جاتی اور انہیں رضاکارانہ واپسی کے فارم پر دستخط کروا کر واپس جانے پر مجبور کیا۔ ‘‘ترک صدر رجب طیب ایردوآن اس سے قبل کچھ شامی مہاجرین کو ترکی سے باہرشمالی شام میں محفوظ علاقوں میں آباد کرنے کے منصوبے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

ترکی میں3.1 ملین سے زیادہ شامی عارضی تحفظ کے تحت مقیم ہیں۔ جوانہیں جبری واپسی کے خلاف قانونی طور پر تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے ڈائریکٹراڈم کوگل نے کہا، ”محفوظ زونز بنانے کا ترکی کا عہد شام کے لوگوں کو کھوکھلا کررہا ہے جو خود کوغیرانسانی حالات سے بچانے کے لیے پرخطر سفرپرمجبورہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ”تل ابیض میں جلاوطن کیے جانے والے مہاجرین بنیادی ضروریات، جن میں چھت اور خوراک شامل ہے، سے بھی محروم ہیں۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں