پاکستانی مدارس میں بچوں سے زیادتی کے واقعات: ‘پولیس والوں نے کہا کیوں ہماری پیٹیاں اُتروانی ہیں’

لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے) “میں نے بہت شوق اور جذبے سے بیٹے کو دینی مدرسے بھیجا تھا تاکہ وہ قرآن حفظ کرے اور میری اور دیگر اہلِ خانہ کی بخشش کا ذریعہ بنے۔ لیکن مدرسے میں اس کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا گیا اور اسے تین بار زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔”

یہ الزام ہے گوجرانوالہ کے قصبے لدھے والا وڑائچ کے رہائشی محنت کش غلام رسول کا جو کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ غلام رسول کے آٹھ بچے ہیں جن میں سے سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر 13 سال ہے۔

غلام رسول بتاتے ہیں کہ ایک سال پہلے انہوں نے بائی پاس روڈ پر واقع دینی مدرسے میں اپنے چھوٹے بیٹے کو قرآن حفظ کرنے کے لیے داخل کرایا تھا۔ اس روز سب گھر والے بہت خوش تھے کہ گھر کا کوئی فرد تو ایسا ہے جس پر سارا خاندان فخر کر سکے گا۔

ان کے بقول مدرسے کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ زیرِ تعلیم بچوں کو مہینے میں ایک بار دو روز کی چھٹی ملتی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

“ثاقب جب ایک ماہ بعد پہلی بار گھر آیا تو وہ بجھا بجھا سا تھا۔ میں یہی سمجھا کہ گھر سے باہر رہنے کی وجہ سے اداس ہے۔ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن رات کو جب اس نے اپنے بڑے بھائی کو اپنے ساتھ مدرسے میں ہونے والے مبینہ برے سلوک کی بات بتائی تو ہمارے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔”

غلام رسول نے بتایا کہ ثاقب کا کہنا تھا کہ مدرسے میں اسے مبینہ طور پر تین بار زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک بار اس کے ایک سینئر لڑکے نے اور دو بار مدرسے کے معلم (استاد) نے زیادتی کی اور یہ دھمکی بھی دی کی اگر کسی کو بتایا تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔

“بڑے بیٹے نے مجھے ساری بات بتائی تو میں نے ثاقب سے اس بارے میں پوچھا۔ وہ رونے لگا۔ مجھے بھی رونا آ گیا کہ میں نے کیا سوچ کر بیٹے کو مدرسے بھجوایا تھا اور اس کے ساتھ وہاں کیا کچھ ہوتا رہا۔”

غلام رسول نے بتایا کہ اگلے ہی روز انہوں نے تھانے جا کر وہاں پولیس والوں کو یہ بات بتائی اور کہا کہ وہ مقدمہ درج کرانا چاہتے ہیں۔

‘تم کیوں ہمارے خلاف جلوس نکلوانا چاہتے ہو؟’

غلام رسول کے بقول پولیس والوں نے کہا کہ ایک تو زیادتی ہوئے کافی دن ہو گئے ہیں، اس لیے اب میڈیکل رپورٹ میں بھی یہ ثابت ہونا مشکل ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذہبی معاملہ ہے۔ تم کیوں چاہتے ہو کہ ہمارے خلاف جلوس نکلیں اور ہماری پیٹیاں اتریں؟ بہتر یہی ہے کہ اس معاملے پر صلح صفائی کا راستہ اختیار کیا جائے۔

“میں نہ مدرسے والوں سے لڑ سکتا تھا نہ ہی پولیس پر میرا زور چلتا ہے۔ میں نے اس واقعے کو ایک حادثہ سمجھ کر قبول کر لیا ہے اور بیٹے کو دوبارہ مدرسے بھجوانے کے بجائے اپنے ساتھ کام کاج پر لگا لیا ہے۔”

تاندلیانوالہ اور کوٹ ادو کے واقعات موضوعِ بحث

پاکستان میں ان دنوں کوٹ ادو اور تاندلیانوالہ میں نابالغ لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے دو کیس میڈیا میں موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں۔

یہ واقعات سوشل میڈیا پر بھی ٹرینڈ کر رہے ہیں جہاں مدارس میں طلبہ کے تحفظ کے نظام کو بہتر بنانے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔

کوٹ ادو کے علاقے سناواں میں ایک مسجد میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے لڑکے کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام سامنے آیا ہے جس پر پولیس نے قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔

کیس کے تفتیشی آفیسر سب انسپکٹر زوار حسین نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق 13 سالہ بچہ مقامی مسجد میں اعتکاف بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھے ایک 28 سالہ نوجوان نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔

تفتیشی افسر کے مطابق یہ زیادتی مسجد کے باتھ روم میں کی گئی۔ پولیس نے متاثرہ لڑکے کے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے لڑکے کا میڈیکل چیک اپ کرا لیا ہے جب کہ ملزم اس واقعے کے بعد مسجد سے فرار ہو گیا جس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

اس سے قبل فیصل آباد کے علاقہ تاندلیانوالہ میں ایک دینی مدرسے کے استاد کی طرف سے کمسن طالبِ علم کے ساتھ زیادتی کی کوشش اور پھر متاثرہ بچے کے والد کے ساتھ مبینہ طور پر زبردستی صلح کا معاملہ بھی سامنے آ چکا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق 12 سالہ لڑکا نمازِ مغرب ادا کرنے کے لیے مسجد گیا تھا۔ کافی دیر تک جب وہ واپس نہ آیا تو والد کو تشویش ہوئی۔ وہ بیٹے کی تلاش میں مسجدِ قدس کے ساتھ والے مکان پر پہنچے تو دیکھا کہ قاری ابوبکر معاویہ بچے کے ساتھ زیادتی کی کوشش کر رہا تھا۔ والد کو دیکھ کر ملزم نے اسے کلاشنکوف سے ڈرایا اور پھر وہاں سے فرار ہو گیا۔

اس واقعے کے بعد پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا تھا۔ لیکن ایک معروف عالمِ دین ابتسام الہی ظہیر کی مبینہ مداخلت پر ملزم کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان صلح ہونے کی وجہ سے ملزم کو چھوڑنا پڑا کیوں کہ مقدمے کے مدعی اور متاثرہ لڑکے کے باپ نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ ان کی ملزم کے ساتھ صلح ہو گئی ہے اور وہ کیس کی مزید پیروی نہیں کرنا چاہتے۔

لیکن اس واقعے پر بحث کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور سوشل میڈیا صارفین پر لوگوں کی بڑی تعداد واقعے کی تحقیقات اور ملزم کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

نیشنل کمیشن آف چائلڈ رائٹس کی چیئرپرسن عائشہ رضا فاروق نے اس معاملے پر اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے کہ متوازی عدلیہ اور غیر قانونی پنچایتوں کے بارے میں قانون بہت واضح ہے اور یہ شکایت کنندگان پر سماجی دباؤ ڈال کر سمجھوتے کرانے والے لوگوں کو تحفظ نہیں دیتا۔”

پولیس کے مطابق تاندلیانوالہ میں کم سن بچے سے ریپ کی کوشش کے کیس میں ملزم کی ضمانت منسوخ کرانے کے لیے کیس پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ کو بھجوادیا گیا ہے جہاں سے ضروری قانونی کارروائی اور دستاویزات مکمل کر کے کیس مجاز عدالت کو ارسال کردیا جائے گا۔

تاندلیانوالہ کے ڈی ایس پی مسعود نذیر کا کہنا ہے کہ آئی جی پنجاب کے نوٹس کے بعد پولیس نے اپنی سفارشات تیار کر کے پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ کو بھجوائیں جو اب ملزم کی بریت کو چیلنج کر رہا ہے۔

اُن کے بقول اس کیس میں پنچایت کے دباؤ کے تحت ملزم کی رہائی ممکن ہوئی۔

‘لڑکا پاؤں دبا رہا تھا، باپ نے زیادتی کی کوشش کا مقدمہ درج کرا دیا’

ابتسام الہی ظہیر نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ تاندلیانوالہ کے شہریوں کے بلانے پر وہاں گئے تھے۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ مولانا ابوبکر معاویہ کو پولیس نے حبسِ بے جا میں رکھا ہوا ہے اور آپ یہاں آ کر اپنا کردار ادا کریں تاکہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔

مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “میں نے بچے کے والد پر دباؤ نہیں ڈالا بلکہ میرا یہ کہنا تھا کہ اگر مولانا ابوبکر معاویہ نے جنسی زیادتی یا کوشش کی ہے تو انھیں سزا دی جائے اور اگر ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تو مولانا کو چھوڑ دیا جائے۔”

اُن کا کہنا تھا کہ “میں نے تاندلیانوالہ جا کر جو بات چیت کی اس میں یہ بات سامنے آئی کہ لڑکا مولانا معاویہ کے پاؤں دبا رہا تھا۔ جب باپ وہاں پہنچا تو اسے یہ بات بری لگی جس پر دونوں کی گالم گلوچ ہو گئی اور بات مقدمے تک پہنچ گئی۔”

‘پاکستان میں روزانہ 12 بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں’

بچوں کے تحفظ سے متعلق ادارے ‘ساحل’ کے مطابق گزشتہ برس جنوری سے جون تک چھ ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 2227 واقعات رپورٹ ہوئے۔ یوں ملک میں روزانہ اوسطاً 12 بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔

‘ساحل’ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک سے پانچ سال کی عمر کے بچوں کو بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق رشتے داروں، خاندان کے افراد اور قریبی جاننے والے افراد بچوں کے جنسی استحصال میں سب سے زیادہ ملوث ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی کے سب سے زیادہ کیسز پنجاب میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ دیگر تمام صوبوں میں بھی بچوں سے زیادتی کے کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کل 4253 رپورٹ کیے گئے کیسز میں سے 2271 یعنی 53 فی صد کیسز شہری علاقوں سے اور 1982 کیس یعنی 47 فی صد دیہی علاقوں سے رپورٹ ہوئے۔

کل رپورٹ کیے گئے کیسز میں سے 89 فیصد پولیس میں درج کیے گئے تھے۔ جنسی زیادتی کے بعد قتل کے کل 81 واقعات رپورٹ ہوئے۔ اغوا کے کل 1834 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 178 کیسز اغوا کے بعد جنسی زیادتی کے رپورٹ ہوئے۔ لاپتا بچوں کے کل 428 کیس رپورٹ ہوئے۔ بچوں کی جبری شادیوں کے 46 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں ایک لڑکے اور 45 لڑکیوں کے کیس تھے۔

ساحل کے لیگل سیکشن سے وابستہ امتیاز احمد سومرو ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ایک خاموش وبا ہے جس پر اکثر کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ پاکستان میں ہر 10 میں سے ایک بچہ اپنی 18 ویں سالگرہ تک اس کا شکار ہو چکا ہوتا ہے۔

‘مدعی راضی نامہ کر لیتے ہیں جس کا فائدہ ملزم کو ہوتا ہے’

ماہرِ قانون شکیلہ سلیم رانا ایڈووکیٹ کہتی ہیں کہ پاکستان میں جنسی زیادتی کی سزائیں سخت تو ہیں لیکن ان میں ملوث ملزمان کو سزائیں اس لیے نہیں ہوتیں کیوں کہ مدعی راضی نامہ کر لیتے ہیں جس کا فائدہ ملزم کو پہنچتا ہے۔

ان کے بقول تاندلیانوالہ کیس میں پولیس بظاہر دباؤ کا شکار نظر آتی ہے جس نے پہلے مرحلے میں اپنا کیس کمزور کر لیا ہے۔ اب اگر پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ عدالت میں کیس کا ریکارڈ پیش کر کے ملزم کی ضمانت منسوخ کرا بھی لیتا ہے تو ملزم صلح نامے کو اعلٰی عدالتوں میں پیش کر کے یہ مؤقف اختیار کر سکتا ہے کہ پولیس نے زبردستی صلح کو ختم کرایا۔

“جنسی زیادتی کے کیس میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 377 لگائی جاتی یے جس کے تحت ملزم کو کم سے کم سات سال اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اگر متاثرہ شخص کی عمر 18 سال سے زائد ہے تو ملزم کو عمر قید ہو گی اور اگر متاثرہ شخص کی عمر 18 سال سے کم ہے تو ملزم کو سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے۔ ”

شکیلہ کہتی ہیں کہ پولیس سے پوچھا جانا چاہیے کہ اگر ایک بچے کے ساتھ زیادتی کی کوشش ہوئی تو پولیس نے وہ حالات ہی کیوں پیدا ہونے دیے کہ متاثرین صلح پر مجبور ہو جائیں؟ ملزم کی گرفتاری کے بعد معاملے کو کیوں التوا میں رکھا گیا اور اسے جیل کیوں نہ بھجوایا گیا؟ ان کے بقول حالات و واقعات فیصل آباد پولیس کی پیشہ ورانہ قابلیت پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں۔

لدھے والا وڑائچ کے غلام رسول کہتے ہیں کہ اگر پولیس کسی بھی شکایت کے ملنے پر فوری قانونی کارروائی عمل میں لائے اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے چاہے وہ مدارس کے مولوی ہوں یا عام شہری، انہیں بلاتفریق قانون کی گرفت میں لائے تو شاید اس طرح کے واقعات روکے جا سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں