سعودی عرب کے وزیر دفاع اہم دورے پر پاکستان پہنچ گئے

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو/اے ایف پی/رائٹرز) سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع میجر جنرل انجینیئر طلال عبداللہ العتیبی دفاع سے متعلق باہمی منصوبوں کو حتمی شکل دینے کے لیے دو روزہ سرکاری دورے پر پاکستان میں ہیں۔ اپنے دورے کے دوران وہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیراور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کریں گے اور دفاعی تربیت اور دفاعی تعلقات کو آگے بڑھانے سمیت دیگر دفاعی امور پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔

دونوں ملکوں میں کن امور پر بات ہو گی

پاکستانی وزارت دفاع کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق العتیبی آج بدھ کو آرمی چیف سے ملاقات کریں گے، جس دوران پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی شعبے میں تربیت سمیت کئی امور پر بات چیت کے علاوہ دفاعی تعلقات کو مزید وسعت دینے پر بھی گفتگو کی جائے گی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان وفود کی سطح پر بھی مذاکرات ہوں گے، جن میں دفاعی پیداوار کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ یہ منصوبے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے پلیٹ فارم کے تحت ہوں گے۔

منگل کی رات وطن روانگی سے قبل سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی قیادت میں اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقات کی۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردی ایک بیان کے مطابق سعودی وفد نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی پائیدار اور اسٹریٹیجک نوعیت کو اجاگر کیا اور دوطرفہ تعلقات کو جاری رکھنے کے لیے متعدد راہیں تلاش کرنے پر زور دیا۔

پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ قریبی فوجی تعلقات ہیں۔ 1970 کی دہائی سے پاکستانی فوجی اس عرب بادشاہت کی حفاظت کے لیے سعودی عرب میں تعینات ہیں اور پاکستان سعودی فوجیوں اور پائلٹوں کو تربیت بھی فراہم کرتا رہا ہے۔ دونوں ممالک باقاعدگی سے کثیر الجہتی مشترکہ منصوبے اور دفاعی مشقیں بھی کرتے رہتے ہیں۔

سعودی وزیر خارجہ کی پاکستانی وزیر اعظم اور صدر سے ملاقاتیں

قبل ازیں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے اپنے دو روزہ دورے کے دوران پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقاتیں کیں۔

شہباز شریف نے سعودی وزیر خارجہ سے ملاقات کے حوالے سے کہا، ”پاکستان، دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کے مزید فروغ کا خواہاں ہے۔ اوران کا یہ دورہ پاکستانی سعودی اسٹریٹیجک اور تجارتی شراکت داری کے نئے دور کا آغاز ہے۔‘‘

شہباز شریف کا کہنا تھا، ”پاکستان بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ اور برادر ممالک سے شراکت داری کو باہمی طور پر مفید بنانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔‘‘

سعودی عرب کے اس وفد نے صدر پاکستان آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کی، جس دوران دوطرفہ مضبوط شراکت داری قائم کرنے اور اقتصادی تعاون کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔

پاکستانی ایوان صدر سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق صدر زرداری نے کہا، ”پاکستان سعودی عرب کے ساتھ موجودہ تعلقات کو طویل المدتی تزویراتی اور اقتصادی شراکت داری میں بدلنا چاہتا ہے۔‘‘

سعودی وزراء کے یہ دورے شہباز شریف کے دوسری بار وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد سے گزشتہ ہفتے ان کے پہلے غیر ملکی دورے کے دوران سعودی عرب میں ولی عہد محمد بن سلمان سے ہونے والی ملاقات کے بعد عمل میں آئے ہیں۔

ایرانی صدر ’بہت جلد‘ پاکستان کا دورہ کریں گے، شہباز شریف

رواں برس جنوری میں میزائل حملوں کے تبادلے کے بعد پاکستان اور ایران دو طرفہ تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اسی تناظر میں میں ایرانی صدر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی حدود میں میزائل حملوں کے بعد یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ یہ خطہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے جبکہ مشرق وسطیٰ میں پہلے ہی حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ جاری ہے۔

ایرانی صدر کا پاکستان کا ممکنہ دورہ اس وجہ سے بھی اہمیت اختیار کر چکا ہے کیوں کہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب تہران حکومت نے اسرائیل پر ایک غیرمعمولی براہ راست حملہ کیا تھا اور اس کے جواب میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

17 اپریل کو پاکستان میں کابینہ کی میٹنگ کے بعد ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے بارے میں اعلان کیا گیا۔ ایک پاکستانی پرائیویٹ ٹیلی وژن چینل جیو نیوز نے اپنے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ابراہیم رئیسی 22 اپریل کو پاکستان پہنچیں گے۔

پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات ہمیشہ خوشگوار نہیں رہے ہیں۔ ایران اپنے ملک میں ہونے والی متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں کا الزام اُن گروپوں پر عائد کرتا ہے، جو اس کے مطابق پاکستانی سرحدوں کے اندر محفوظ پناہ گاہیں بنائے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کا الزام ہے کہ بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسند عسکریت پسند ایرانی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

ان دونوں ہمسایہ ملکوں میں ناخوشگوار تعلقات کی ایک تاریخ ہے لیکن جنوری میں ہونے والے دو طرفہ میزائل حملے گزشتہ کئی برسوں کے سنگین ترین واقعات تھے۔

ان واقعات کے بعد سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کی تیز رفتار کوششوں کے نتیجے میں یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ یہ دونوں ملک ایک دوسرے کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کریں گے جبکہ سکیورٹی تعاون کو بڑھانے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا۔

دوسری جانب پاکستان کی کوشش ہے کہ ہمسایہ ممالک کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ تعلقات میں ایک نئی گرمجوشی پیدا کی جائے تاکہ ملک میں سرمایہ کاری آ سکے۔ شہباز شریف کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کا دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی اور ریاض حکومت پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں