ریاست کا سوتیلا بیٹا شہداد بلوچ (شبیر حسین طوری)

یہ غالباً سال 2016 کی بات ہے جب پاکستان کے مشہور نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے معروف اینکر پرسن حامد میر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں کیپٹل ٹاک کا پروگرام کر رہے تھے جس میں پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور اس وقت کے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے علاوہ معروف گلوکار جواد احمد بطور میزبان شریک تھے۔ اس موقع پر طلباء و طالبات کی ایک بڑی تعداد بطور سامعین بھی شریک تھی سوال و جواب کے سیشن کے دوران ایک دبلا پتلا نوجوان مسکراتے چہرے کے ساتھ کھڑا ہوا اپنا تعارف صوبہ بلوچستان کے شہری کی حیثیت سے کروایا اور دھیمے لہجے میں سوال کیا کہ بلوچستان میں سوئی گیس بھی یے، ریکوڈک بھی یے سیندک بھی ہے جب یہ سب چیزیں بلوچستان کے حالات سدھار نہیں پائے تو چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کیسے بلوچستان کی تقدیر بدلے گا؟ نوجوان کے سوال کے ساتھ ہی ہال تالیوں سے گونج اٹھا لیکن اس کا سوال ابھی ادھورا تھا لہٰذا اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جو بھی حکومت آتی ہے وہ کچھ دینے کا وعدہ کر کے کچھ نا کچھ لے جاتی ہے، اس لئے میرا سوال ہے کہ سی پیک سے بلوچستان کے عوام کو کچھ ملے گا بھی یا اس بار پھر دینے کے نام پر لیا جائے گا؟ اس نوجوان کے سوالات میں ایک شکوہ تھا، احساس محرومی جھلک رہی تھی مگر اس کرب کو مسکراہٹ کے ذریعے چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے وہ اپنی نشست پر بیٹھ گیا اور ہال ایک دفعہ پھر تالیوں سے گونج اٹھا۔

اس وقت شاید کسی نے بھی اس نوجوان کو اہمیت نہیں دی ہو گی مگر آج وہ ایک بار پر توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ وہ پروگرام کسی کو یاد ہو یا نہ ہو مگر چار سال بعد اس پروگرام کے چھوٹے سے کلپ نے دوبارہ توجہ حاصل کر لی کیونکہ اس پروگرام میں سوالات کرنے والا نوجوان شہداد بلوچ تھا جو چند دن پہلے بلوچستان کے علاقے ضلع قلات میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مبینہ مقابلے میں مارا گیا۔

شہداد بلوچ نے قائداعظم یونیورسٹی سے ایم فل کی تعلیم حاصل کر رکھی تھی اور وہ انسانی حقوق کمیشن کا نمائندہ بھی تھا جو بلوچستان سے جبری لاپتہ افراد کی خبریں فراہم کرتا تھا۔ بی بی سی اردو نے اس نوجوان پر تفصیلی کالم تحریر کیا ہے، جس میں اس کے دوستوں کا موقف بھی شامل ہے، جن کے مطابق شہداد بلوچ نے کبھی مسلح جدوجہد کی حمایت نہیں کی تھی بلکہ وہ چاہتا تھا کہ وہ سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے ایک افسر بن جائے۔

یہ کہنا کہ شہداد بلوچ نے کب اور کیوں قلم پھینک کر بندوق اٹھانے کا فیصلہ کیا، اس نے واقعی میں بندوق اٹھائی یا اس کی لاپتہ افراد کے بارے سرگرمیوں کی وجہ سے تنگ آ کر اسے ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی، یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ جو مکمل حقیقت جانتا تھا وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکا اور جو زندہ ہیں وہ اپنی جان کے خوف سے سچ چھپانے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں بلوچستان میں بغاوت نے زور پکڑا ہے اور اس کی وجہ پاکستان کے ایک خودسر ادارے کی ناقص حکمت عملی ہے۔

بلوچستان کے معروف سیاسی و قبائلی رہنما، سابق گورنر اور وزیر اعلیٰ نواب اکبر بگٹی کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا، جس بیہمانہ طریقہ سے انکا قتل کیا گیا، اس نے بلوچستان میں چنگاری کا کام کیا ہے۔ بلوچستان احساس محرومی کا شکار تو پہلے ہی تھا، جس پر نواب اکبر خان بگٹی کے قتل نے جلتی ہر تیل کا کام کیا۔

آزاد بلوچستان کے حامی افراد نے اس قتل کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور فوج بجائے اس کے کہ اپنے سابقہ رویے پر غور کرتی یا شرمندہ ہوتی، الٹا مزید تشدد کی پالیسی اپنائی گئی اور یوں نفرت عام بلوچوں تک بھی پہنچ گئی۔ بلوچستان کے ساتھ جہاں ترقی میں سوتیلا پن روا رکھا گیا، میں سمجھتا ہوں کہ دہشت گردی کی جنگ میں بھی سوتیلا پن رکھا جا رہا ہے۔

شہداد بلوچ دہشت گرد ہو گا؟ مگر ہنس مکھ، قابل، ذہین اور پڑھا لکھا نوجوان بھی تھا۔ اس کے ساتھ مارا جانے والا نوجوان احسان بھی بھی قائد اعظم یونیورسٹی کا طالب علم تھا، جنہیں اس طرح گولیوں سے چھلنی کرنا زیادتی تھی۔

اب یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ کیا ایک دہشت گرد کو پھول پیش کئے جاتے؟
میرے خیال سے بالکل پھول ہی پیش کئے جاتے کیونکہ یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ پاکستان کے صوبہ سندھ کی رہائشی نورین لغاری ایک دن اچانک گھر سے غائب ہوگئی اور اس نے چند دن بعد باپ سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر کے بتایا کہ وہ اسلامی ریاست یعنی شام میں دولت اسلامیہ (داعش) کے زیر قبضہ علاقے میں پہنچ چکی ہے لہٰذا اسے ڈھونڈنا فضول ہے۔

چند ماہ کے بعد سیکیورٹی فورسز نے لاہور کے علاقے پنجاب ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک مکان پر دہشت گرد مقیم ہونے کی اطلاع پر چھاپہ مارا جسکے دوران ایک دہشت گرد علی طارق مارا گیا جبکہ نورین لغاری کو خودکش جیکٹ اور اسلحہ بارود کے ساتھ گرفتار کرلیا گیا جس نے بعدازاں انکشاف کیا کہ انکا منصوبہ مسیحی برادری کی مذہبی تہوار ایسٹر پر ایک بڑے چرچ پر خودکش حملہ کرنا تھا۔ آپریشن کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں سکیورٹی فورسز کے دو افسران سمیت چار اہلکار بھی زخمی ہوئے تھے۔

اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس کر کے تفصیلات سے آگاہ کیا اور واضح کیا کہ نورین لغاری گو کہ دہشت گرد بن چکی ہے مگر وہ قوم کی بیٹی ہے لہٰذا اس کو سزا دلانے کے بجائے اس کی ذہنی تربیت کر کے اسے معاشرے کا حصہ بنایا جائے گا کیونکہ وہ میڈیکل کی طالبہ ہے اور ہمارے معاشرے میں تعمیری کردار ادا کر سکتی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس عمل کو اگر مثبت دیکھا جائے تو پڑھے لکھے نوجوان جو جذبات میں آ کر غلط راستے پر چل پڑتے ہیں، انہیں ایک اچھا انسان بننے کا ایک موقع ضرور دینا چاہئے۔

اس کے علاوہ طالبان کے خلاف جنگ کے دوران خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع میں متعدد ایسے اصلاحی سینٹرز بھی قائم کئے گئے جہاں گرفتار طالبان کی ذہنی تربیت کر کے انہیں معاشرے میں رہنے کے قابل بنایا جاتا ہے، ایسے کچھ سینٹرز پر ہمارے نیوز چینلز نے پروگرام بھی کئے اور دہشت گردوں کو فراہم کی جانے والی سہولیات سے بھی عوام کو آگاہ کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں بلوچ دہشت گردوں کی اصلاح کے لئے ایسے اقدامات کیوں نہیں کئے گئے یا بلوچ نوجوان جو دہشت گرد تنظیموں کا حصہ بن جاتے ہیں، ان پر نورین لغاری جیسی مہربانیاں دیکھنے میں کیوں نہیں آتیں۔

اس سلسلے میں جب بلوچستان کے ایک مقامی صحافی سے رابطہ کر کے یہ سوالات ان کے سامنے رکھے گئے تو انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے قریب ایک سینٹر قائم کیا گیا تھا جہاں گرفتار دہشت گردوں اور ان کے بچوں کی اصلاح کا پروگرام شروع کیا جانا تھا لیکن اس منصوبے کا آغاز کے ساتھ ہی اختتام ہو گیا۔ ان کے مطابق بلوچ مزاحمت مذہبی نہیں بلکہ قومی ہے اور بلوچ نوجوان نہایت سوچ سمجھ کر ہی بندوق اٹھانے کا فیصلہ کرتے ہیں بلکہ آخری آپشن کے طور پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست مذہبی دہشتگردوں کے لئے بہت ہمدردی رکھتی ہے خواہ وہ طالبان ہوں یا داعش بلکہ انہیں اثاثہ سمجھتی ہے جبکہ بلوچ مزاحمتی تحریک سے ریاست بہت خائف ہے کیونکہ وہ ریاست سے اپنا حق مانگتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ بلوچ نوجوان جو مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں، ان کے لئے اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

بلوچستان کے مقامی صحافی کے موقف سے اس بات کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ ریاست کی نظر میں دو قسم کے دہشتگرد ہیں، لاڈلے اور سوتیلے۔ لاڈلا دہشتگرد جتنے بھی سنگین جرائم کرے مگر اس کے لئے نرم گوشہ ہمیشہ موجود رہتا ہے خواہ وہ طالبان کا مرکزی رہنما اور ترجمان احسان اللہ احسان ہی کیوں نا ہو جس کا نہایت باعزت طریقے سے قومی نیوز چینل پر بٹھا کر ایک مشہور معزز شخصیت کے طور پر ہنستے مسکراتے انٹرویو کیا جاتا ہے، تین سال گیسٹ ہاؤس میں رہائش دی جاتی ہے جہاں سے ایک دن نہایت خاموشی سے فرار ہو جاتا ہے اور اس کے فرار پر نا ہی کسی کو ذمہ دار ٹھرایا جاتا ہے اور نا ہی جے آئی ٹی بنائی جاتی ہے۔

نورین لغاری دہشتگرد ہونے کے باوجود باعزت زندگی گزار رہی ہے مگر شہداد بلوچ منوں مٹی تلے چلا گیا۔ نوجوان تو وہ بھی تھا، اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی تھا، نورین لغاری کی طرح بھٹکا ہوا دہشت گرد بھی تھا مگر بلوچ تھا۔

بلوچستان کے جس طرح عام شہری کے ساتھ حقوق کے معاملے پر سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے، اسی طرح ان کے دہشت گردوں کے ساتھ بھی ہمدردی نہیں دکھائی جاتی کیونکہ سوتیلا ہمیشہ سوتیلا ہی رہتا ہے۔

اس سوتیلے پن اور حقوق کے مطالبے کو غداری کے زمرے میں لا کر جو سلوک بلوچ قوم کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے، اس کے نتائج نہایت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں گو کہ ریاست اس پالیسی کا انجام مغربی پاکستان میں بھگت چکی ہے جہاں نوے ہزار بہادروں نے اپنے ہی ملک میں ہتھیار پھینک کر دنیا کے سامنے انوکھی مثال قائم کی تھی مگر غرور اور گھمنڈ آج بھی ریاستی اداروں کے سر چڑھ کر بول رہا ہے اور وہ ہر مسئلہ کا حل طاقت اور گولی سے حل کرنا چاہتے ہیں جو کسی بھی مہذب معاشرے میں ناقابل قبول رویہ سمجھا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں