افغانستان: امریکا کا مزید اٹھارہ جنگی طیارے بھیجنے کا فیصلہ

واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے/اے پی/روئٹرز) امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی افواج کے تحفظ کے لیے مزید اٹھارہ جنگی جہاز افغانستان بھیجے جا رہے ہیں۔

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے چھ مئی جمعرات کے روز اعلان کیا کہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے تحفظ کے لیے امریکی عسکری کمانڈ نے اضافی جنگی طیارے بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکا اور نیٹو ممالک نے یکم مئی سے افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا شروع کر دیا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں انخلا کے جس منصوبے کا اعلان کیا تھا اس کے مطابق امریکی افواج کو اس برس گیارہ ستمبر تک افغانستان سے مکمل طور پر نکالنا ہے اور اسی کے تحت نیٹو اتحاد نے بھی اپنے فورسز کے انخلاء کا عمل شروع کر دیا ہے۔

پینٹاگون نے کیا کہا ہے؟

پینٹاگون کے جوائنٹ چیف چیئرمین مارک ملی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ افغانستان سے نکلنے والی افواج کو فضائی تحفظ فراہم کرنے کے لیے چھ بی- 52 بمبار جہاز اور 12 ایف 18 جنگی طیاروں کو بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ”امریکی اور اتحادی افواج پر ابھی تک کوئی حملہ نہیں ہوا ہے” تاہم دیکھا یہ گیا ہے کہ طالبان ہر روز افغان حکومت کے فورسز کے خلاف 80 سے 120 تک حملے کر رہے ہیں۔مارک ملی نے افغان فورسز کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ متحد و مربوط ہیں اور امریکا ان کی مدد کے لیے ایسے متبادل پر غور کر رہا ہے جس سے افغان فورسز اپنے ملک کی سکیورٹی کو برقرار رکھ سکیں۔

ان کا مزید کہنا تھا، ”اب وہ اپنے خود کے ملک کے لیے لڑ رہے ہیں، لہذا یہ کوئی حتمی نتیجہ نہیں ہے۔ میرے پیشہ ورانہ فوجی اندازے کے مطابق اگر طالبان خود بخود جیت جاتے ہیں اور سقوط کابل ہوتا ہے، یا حفاظت کے لیے کوئی شدید مزاحمت ہوتی ہے، تو اس بارے میں کوئی حتمی نتیجہ نہیں اخذ کیا جا سکتا۔ افغان حکومت میں ایک نمایاں فوجی قابلیت ہے۔ تو ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ آگے چل کر ہوتا کیا ہے۔”

ملی کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کسی دوسرے ملک میں بھی افغان فورسز کی تربیت کر سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پینٹاگون افغان فضائیہ کے لیے

اضافی مدد پر غور کر رہا ہے، جس کا انحصار غیر ملکی تکنیکی ماہرین اور ایسے ٹھیکیداروں پر ہے جو اب ملک چھوڑ رہے ہیں۔

اس پریس کانفرنس میں امریکی وزیر دفاع آسٹن لوئیڈ بھی موجود تھے جن کا کہنا تھا کہ امریکی انخلا کی کارروائی اب تک منصوبے کے مطابق جاری ہے۔ ان کا تاہم کہنا تھا، ” امریکی فوجیوں کی واپسی کے بعد طالبان کو روکنا افغان فورسز کے لیے ایک چیلنج بھی ہو گا۔”

پینٹاگون کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بقیہ امریکی فوجیوں کی تعداد تقریباً ڈھائی ہزار ہے تاہم خصوصی آپریشن فورسز کی تعیناتی کے بعد یہ تعداد تین ہزار سے ساڑھے تین ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔
امریکا نے سن 2001 میں گیارہ ستمبر کو نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز پر جہادی تنظیم القاعدہ کے حملے کے بعد افغانستان پر چڑھائی کردی تھی۔ اس میں نیٹو ممالک نے بھی امریکا کا ساتھ دیا تھا اور اپنی افواج افغانستان میں تعینات کی تھیں۔

امریکا نے اس حملے کے بیس برس بعد اپنی طویل جنگ ختم کرنے کا اعلان تو کر دیا ہے تاہم کئی حلقوں کی جانب سے اس بات پر نکتہ چینی ہو رہی ہے کہ افغان حکومت کے فورسز اب بھی ملک کی سلامتی کے لیے پوری طرح سے تیار نہیں ہیں اور طالبان پھر سے اقتدار پر قبضہ کر کے انسانی حقوق کو پامال کر سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں