طالبان نے افغانستان میں وائس آف امریکہ اور بی بی سی کی نشریات پر پابندی عائد کر دی

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان میں طالبان نے نجی ٹیلی وژن اسٹیشنز کو وائس آف امریکہ (وی او اے) اور برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کے نیوز پروگرام دکھانے سے روک دیا ہے۔

طالبان کی جانب سے یہ پاپندی ان پابندیوں کا حالیہ تسلسل ہے جو گزشتہ اگست سےان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغان میڈیا پر اظہارِ رائے کی آزادی کو دبانے کے لیے لگائی گئی ہیں۔

وائس آف امریکہ نے طالبان کی جانب سےاس کے پروگرام آف ایئر کرنے کی مذمت کی ہے۔ وی او اے کی قائم مقام ڈائریکٹر یولنڈا لوپیز نے اتوار کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ “ہم طالبان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس پریشان کن اور افسوس ناک فیصلے پر نظرثانی کریں۔”

لوپیز نے کہا کہ “طالبان مواد کی جو پابندیاں لگانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اظہارِ رائے کی آزادی کے خلاف ہے جو افغانستان کے عوام کا حق ہے۔”

وی او اے افغانستان میں اپنے افغان پارٹنر ‘طلوع نیوز’ اور ‘شمشاد ٹی وی’ کے لیے افغانستان میں بولی جانے والی دو اہم زبانوں پشتو اور دری میں آدھے گھنٹے کا نیوز بلیٹن تیار کرتا ہے۔ یہ بلیٹن ہفتے میں پانچ روز تیار کیا جاتا ہے۔

یولنڈا لوپیز نے ایک بیان میں کہا کہ اگرچہ افغانستان میں ہمارے ٹیلی وژن پارٹنرزکے لیے طالبان کے احکامات مایوس کن اور افسوس ناک ہیں، افغان عوام کو حقائق پر مبنی معلومات فراہم کرنا ہمارا عزم ہے اور اسی لیے وائس آف امریکہ www.pashtovoa.com اور www.darivoa.com پر ٹیلی وژن ، ریڈیو اور انٹرنیٹ سمیت سوشل میڈیا پر جاری رہے گا۔

دوسری جانب بی بی سی ورلڈ سروسز میں ہیڈ آف لینگوجز نے بھی طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کے نیوز بلیٹنز پر پابندی فوری ہٹائیں۔

طارق کفالہ نے اتوار کو ایک بیان میں تصدیق کی کہ”طالبان کی جانب سے ہمارے ٹی وی پارٹنرز کو بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو اپنے ایئرویز سے ہٹانے کے حکم کے بعد افغانستان میں بی بی سی کے پشتو، فارسی اور ازبک میں نشر ہونے والے ٹی وی نیوز بلیٹن کو آف ایئر کردیا گیا۔”

ان کا کہنا تھا کہ “افغانستان میں لوگوں کے لیے غیریقینی اور ہنگامہ خیزی کے وقت میں یہ ایک تشویش ناک پیش رفت ہے۔”

انہوں نے کہا کہ “افغانستان میں ٹی وی پر ہر ہفتے ساٹھ لاکھ سے زائد افغان شہری بی بی سی کے آزاد اور غیرجانبدارانہ پروگرامز دیکھتے ہیں اور یہ بہت اہم ہے کہ مستقبل میں اس تک ان کی رسائی نہ روکی جائے۔”

اس تمام معاملے پر جب طالبان کی وزارتِ اطلاعات کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ آیا انہوں نے افغان چینلز کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے ایئرویز سے بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو ہٹا دیں تو انہوں نے وی او اے کو کہا کہ وہ معلومات اکٹھی کرکے بتائیں گے۔

ملکی اور غیر ملکی ناقدین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں میڈیا اور آزادئ اظہار کی صورتِ حال خراب ہے۔ افغان صحافیوں کو بارہا حراست میں لیا جا رہا اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد کا نشانا بنایا جا رہا ہے۔ طالبان کی عبوری حکومت نے ‘صحافتی قواعد’ کا ایک سیٹ جاری کیا ہے جس میں “اچھی چیز سے لطف اندوز ہونے اور برائی سے انکار” پر اسلامی نظریے کی گروپ کی جانب سے کی گئی تشریح کی میڈیا میں تعمیل بھی شامل ہے۔

یاد رہے کہ دسمبر میں رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کے جاری کیے گئے ایک سروے کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کم از کم 40 فی صد افغان میڈیا ادارے ختم ہو گئے اور 80 فی صد سے زائد خواتین صحافی اپنی ملازمتوں سے محروم ہو گئیں۔

سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ دارالحکومت کابل اور ملک کے دیگر حصوں میں صحافیوں کے لیے ماحول “انتہائی پریشان کن” ہوگیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مقامی صحافیوں کے لیے آزادانہ کام کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔

طالبان کے خوف یا نئی حکمرانی میں اپنے پیشے سے منسلک رہنے میں مشکلات کی وجہ سے سینکڑوں صحافی افغانستان چھوڑ چکے ہیں۔

آر ایس ایف کے سروے کے مطابق 15 اگست2021 کو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے چھ ہزار چار سو سے زیادہ صحافی اور میڈیا ملازمین اپنی نوکریاں گنوا بیٹھے ہیں۔

وی او اے اور بی بی سی پروگرامز پر پابندی ایسے وقت میں لگائی گئی ہے جب طالبان کو نوجوان افغان لڑکیوں کے لیے اسکولوں کی بندش پر عالمی دباؤ اور مذمت کا سامنا ہے۔

طالبان نے 23 مارچ کو لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول دوبارہ کھول دیے تھے لیکن درحقیقت انتظامیہ نے آخری لمحات میں چھٹی جماعت سے اوپر کی لڑکیوں کے اسکول واپسی کے خلاف فیصلہ کیا تھا۔

انتظامیہ نے اس کے لیے شریعت یا اسلامی قانون کے مطابق اسکول یونیفارم سمیت مختلف انتظامات کی کمی کا حوالہ دیا تھا۔

لڑکیوں کےلیے اسکولز کی عائد کی گئی بندش کے خلاف افغان خواتین اور لڑکیوں نے ہفتے کو احتجاج بھی کیا تھا اور طالبان سے لڑکیوں کے اسکولز دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ اگر انتظامیہ ایک ہفتے میں لڑکیوں کے اسکولز کھولنے میں ناکام رہی تو احتجاج کا دائرہ ملک بھر میں پھیلایا جائے گا۔

خیال رہے کہ عالمی برادری نے انسانی حقوق پر خدشات، دہشت گردی اور کابل حکومت میں صرف مردوں کی شمولیت کا حوالہ دیتے ہوئے طالبان کو ابھی تک افغانستان کے قانونی حکمران تسلیم نہیں کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں