جنسی ہراسانی کا الزام: جرمن سفارتکار کی پاکستان سے واپسی

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) ایک اعلیٰ جرمن سفارت کار پر کراچی میں ’ایل جی بی ٹی کیو‘ کی تقریب کے دوران ایک خاتون کو نامناسب طریقے سے پکڑنے کا الزام ہے۔ جرمن وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تحقیق کے بعد’جنسی ہراسانی کا کوئی ثبوت نہیں ملا‘۔

ایک سینئیر جرمن سفارت کار کی جانب سے جنسی ہراسانی کا یہ مبینہ واقعہ گزشتہ برس نومبر کے مہینے میں کراچی شہر میں’ ایل جی بی ٹی کیو‘ کمیونٹی کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب کے دوران پیش آیا۔ اس تقریب کا انعقاد پاکستانی نژاد کینیڈین راک موسیقار عروہ خان نے کراچی میں جرمن سفارت خانے کی مالی معاونت سے مشترکہ طور پر کیا تھا۔

عروہ خان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا، ”اس تقریب کا مقصد ہمارے معاشرے میں عجیب سمجھے جانے والے ہم جنس پرستوں اور سوسائٹی کے لیے غیرمناسب مگر ہنرمند افراد کے کام کو سراہنا تھا۔‘‘ پاکستان میں نو آبادیاتی دور سے چلے آ رہے قوانین کے تحت ہم جنس پرستی اب بھی ایک جرم ہے۔ ایک ہم جنس پرست کو اس معاشرے میں بہت احتیاط برتنے کی ضرورت رہتی ہے۔

ایل جی بی ٹی کیو کی ‘محفوظ‘ تقریب

تاہم کراچی کے ہم جنس پرستوں کے خیال میں ‘سکریپ فیسٹ‘ نامی یہ تقریب باہمی میل ملاپ اور اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرنے کا ایک محفوظ ذریعہ تھی۔ اس تقریب کی آغاز میں شرکاء کے یہ احساس درست بھی محسوس ہوتے تھے۔ تقریب کے دوران تھوڑی سی مضطرب ایک خاتون جذباتی اور جسمانی تشدد کے خلاف ایک تحریر پڑھنے کے لیے اسٹیج پر آئیں۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ وہ اپنی ہم جنس پرستانہ شناخت کے ساتھ عوامی مقام پر بول رہی تھیں۔

ان کی تحریر کا اختتام کچھ یوں تھا، ”اے چھوٹی لڑکیو! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تم جنسی زیادتی، تذلیل اور روندے جانے کے لیے بنائی گئی ہو۔‘‘

یہی اختتامی سطور اُس شام آگے چل کر اسی تقریب میں پیش آنے والے ایک واقعے کی پیش نمائی کرتی نظر آتی ہیں۔ بعدازاں اس تقریب کے دوران ایک اعلیٰ جرمن سفارت کار نے مبینہ طور پر ایک خاتون کی پشت کو نامناسب طریقے سے پکڑا اور متعدد دیگر خواتین کو بھی جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا۔

ڈی ڈبلیو کو فراہم کیے گئے ایک بیان میں جرمن وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی ایک مہینے پر مشتمل تحقیقات کے بعد اسے جنسی ہراسانی کا ‘ثبوت نہیں‘ ملا۔ تاہم ان تحقیقات کے نتائج کو سرکاری طور پر خفیہ رکھا گیا ہے اور اس سفارت کار کو جلد ہی برلن واپس بلایا جا رہا ہے۔

ڈی ڈبلیو نے اس تقریب میں شرکت کرنے والے آٹھ افراد سے بات چیت کے ساتھ ساتھ تقریب کی ویڈیو فوٹیج، اس واقعے میں ملوث جرمن سفارت کار اور تقریب کے منتطمین کے درمیان ٹیکسٹ میسجز کے تبادلوں کا جائزہ لیا ہے۔

وہ خاتون، جنہوں نے اس اعلیٰ جرمن سفارت کار پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس رات تقریب کے اختتام کے قریب، جب وہ اس جرمن سفارت کار کے عقب سے گزر رہی تھیں تو اس (سفارت کار) نے انہیں پشت سے پکڑا تھا۔ اس خاتون کا کہنا ہے کہ یہ کسی طور پر بھی محض ایک غلطی نہیں ہو سکتی۔

ڈی ڈبلیو کی طرف سے حاصل کی گئی اس واقعے کی فوٹیج میں جزوی طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہاں کیا ہوا تھا؟ یہ فوٹیج پشت سے پکڑے جانے کے الزام کے بارے میں کوئی حتمی ثبوت تو مہیا نہیں کرتی لیکن اس خاتون کے جرمن سفارت کار کے عقب سے گزرنے کے لمحے اس سفارت کار کے بازو کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

بعدازاں شام کو جرمن سفارت کار نے اسی خاتون کی تصویر، تقریب کی منتظم عروہ خان کو بھجوائی اور اس سے رابطہ کرنے کے لیے تفصیلات بھی طلب کیں۔ اگلے روز عروہ خان نے جرمن سفارت کار کو ایک ٹیکسٹ میسج کے ذریعے اس خاتون کو پشت سے پکڑنے کے واقعے کا ذمہ دار قرار دیا۔ جرمن سفارت کار نے اس میسج کے جواب میں لکھا، ”میں نے ایسا کیا؟ بہت ہی برا ! برا !!! الکوحل کا اثر۔‘‘ اس کے بعد اگلے میسج میں اس جرمن سفارت کار نے لکھا، ”مجھے صرف یہ یاد ہے کہ وہ میری طرف دیکھ کر گرم جوشی سے مسکرائی تھی لیکن مجھے یقینی طور پر کسی بھی طرح کا جسمانی رابطہ یاد نہیں۔‘‘ بعد میں اس سفارت کار نے مزید لکھا، ” میں ہراساں نہیں کرتا۔‘‘

جنسی ہراسانی کا یہ واقعہ مبینہ طور پر اس تقریب میں سٹیج کے نزدیک پیش آیا تھا۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرنے والے عینی شاہدین میں سے کسی ایک نے بھی پشت پکڑے جانے کے اس واقعے کو براہ راست نہیں دیکھا۔ تاہم ان کی گواہیاں اس واقعے کے کلیدی پہلوؤں کے بارے میں ایک دوسرے سے میل کھاتی ہیں۔ ان تمام کا کہنا تھا کہ ہم جنس پرستوں کی اس تقریب کے انعقاد کے لیے مالی معاونت مہیا کرنے والے اس جرمن سفارت کار نے اس تقریب میں شریک مہمانوں کو ہراساں اور بے چین کیا تھا۔

‘جرمن سفارت کار نے مہمانوں کو ہراساں کیا‘

اس تقریب کے شرکاء میں سے ایک کے الفاظ میں یہ جرمن سفارت کار ‘غیرمہذب‘ رویے کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ اس اعلیٰ جرمن سفارت کار نے اس تقریب میں شریک فنکاروں کو وہسکی اور بئیر کی وافر مقدار مہیا کی تھی۔ چند عینی شاہدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جوں جوں رات ڈھلتی جا رہی تھی یہ سفارتکار واضح طور پر اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے مہمانوں کی جانب لپک رہا تھا۔ ایک مرد مہمان کا کہنا تھا کہ اسے اپنی خواتین دوستوں کی کمروں پر اس جرمن سفارت کار کے ہاتھ رکھنے کے انداز کو دیکھ کر کر شدید بے چینی ہو رہی تھی۔

ایک اور خاتون نے جرمن سفارت کار کی جانب سے اسے زبردستی ڈانس فلور کی جانب گھسیٹنے کا الزام لگایا۔ ایک اور مہمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب خواتین اور ایل جی بی ٹی کیو برادری کے افراد کے ساتھ سلوک کی بات آتی ہے تو اسے لگتا ہے کہ ”مغرب کے لوگ مختلف ہوں گے۔‘‘ اس مہمان کا کہنا تھا کہ اسے کسی یورپی سفارت کار سے اس طرح کے رویے کی توقع نہیں تھی۔

ایک ویڈیو میں اس سفارت کار کو ایک ہاتھ میں مائیک اور دوسرے میں بئیر کا ایک ڈبہ پکڑے اور اپنے بالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ کہتے سنا جا سکتا ہے، ”کیا میرے سنہرے بال آج کی رات کے بہترین سنہرے بال ہیں؟‘‘ اس کے بعد وہ مزید کہتا ہے، ” ہم یہاں پاکستان میں ہیں۔ ہم پاکستان کو مستقبل کی طرف دیکھنے والا ایک ملک بنانا چاہتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ آپ پچاس سال قبل والے جرمنی کی طرح کا ایک ملک بنیں۔‘‘

اس سفارت کار کے اس رویے کو جرمن ایمبیسی کے لیے بھی ایک سبکی کے طور پر دیکھا گیا۔ اس تقریب میں شریک ایک ‌خاتون نے غصے سے بھرائی آواز میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”آپ کا رویہ ہے کہ آپ ہمیں سکھانے کے لیے یہاں ہیں اور پھر آپ جا کر یہ کرتے ہیں؟‘‘ اس خاتون کے بقول یہ جرمن سفارت کار کا یہ رویہ ‘منافقانہ‘ تھا۔

پاکستان میں شکایت کی راہ میں رکاوٹیں

اس تقریب کے شرکاء میں سے کسی نے بھی پاکستان میں جرمن سفارت کار کے خلاف الزامات عائد نہیں کیے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ہم جنس پرستی کی ایک ایسی تقریب میں شرکت کی تھی، جو ملکی قوانین کے تحت ایک جرم ہے۔ اگرچہ پاکستان میں ہم جنس پرستی کے قوانین کا اطلاق شاذ و نادر ہی کیا جاتا ہے لیکن قانون کے مطابق ہم جنس پرستی کی سزا عمر قید یا یہاں تک کہ موت بھی ہے۔

پاکستان میں آج بھی ایل جی بی ٹی کیو برادری کو ظلم، بدنامی اور تشدد کا سامنا ہے۔ ٹرانس جینڈر طبقہ پاکستان میں سماجی طور پر سب سے زیادہ پسماندہ گروہوں میں سے ایک ہے۔

جرمن سفارت کار کی جانب سے مبینہ طور پر پشت سے پکڑے جانے والی خاتون کا کہنا تھا، ”شاید اس جرمن باشندے کی یہ سوچ ہو گی کہ چونکہ میں ایک براؤن رنگت والی عورت ہوں، اس لیے وہ اپنے خلاف کارروائی سے بچ جائے گا۔‘‘

لیکن اس واقعے کے حوالے سے اس تقریب کے منتظمین اور شرکاء نے مدد کے لیے رواں سال اپریل میں جرمن وزارت خارجہ سے مدد مانگی۔

پشت سے پکڑنا، جرمنی میں بھی ایک جرم

جرمن قانون کے مطابق کسی کو اس کی مرضی کے خلاف پشت سے پکڑنے پر دو سال کی قید یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ بیرون ملک اس جرم کے مرتکب جرمن باشندوں کے خلاف بھی جرمنی میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے ایک جرمن وکیل کا کہنا تھا کہ عینی شاہدین کے بیانات اور ویڈیو فوٹیج کی روشنی میں ملزم کو سزا دی جا سکتی ہے تاہم بظاہر نشے کی حالت میں ہونے کی وجہ سے یہ جرمن سفارت کار اس سزا سے بچ سکتا ہے۔

جرمن دفتر خارجہ نے باقاعدہ شکایت کے اندراج کے بعد مئی کے مہینے میں اپنی تحقیقات کا آغاز کیا تھا اور پھر ایک ماہ بعد جون کے وسط میں تحقیقاتی عمل مکمل کر لیا گیا تھا۔ ان تحقیقات کے نتائج کو ابھی تک خفیہ رکھا گیا ہے لیکن جرمن وزارت خارجہ نے اس واقعے کا شکار ہونے والی خاتون پر اس سے متعلق بات چیت پر پابندی لگا دی ہے۔ تاہم ڈی ڈبلیو کو معلوم ہوا ہے کہ اس سفارت کار کو آنے والے چند ہفتوں میں برلن واپس بلا لیا جائے گا۔

ڈی ڈبلیو کو فراہم کیے گئے ایک تحریری جواب میں جرمن وزارت خارجہ کا کہنا ہے، ” ان الزامات کو بہت سنجیدگی سے لیا گیا ہے اور اس بارے میں جامع تحقیقات کی گئی ہیں۔‘‘

اس جواب کے مطابق تمام دستیاب شواہد کو دیکھنے اور گواہوں سے بات کرنے کے بعد جنسی ہراسانی کے مخصوص الزام کو ‘ثابت‘ نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اس تحقیق میں جرمن سفارت کار کو’نامناسب طرز عمل‘ کا مرتکب پایا گیا ہے اور اس بارے میں ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

وزارت خارجہ کے مطابق اس نے جنسی ہراسانی کے بارے میں اپنے طریقہ کار کا جائزہ لیا ہے اور اس کے بعد اپنی انگریزی ویب سائٹ پر ایک شکایت فارم بھی مشتہر کیا ہے۔

جنسی ہراسانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے جرمن سفارت کار نے ڈی ڈبلیو کے تحریری سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا اور اس کے بجائے ایک مختصر ای میل میں وزارت خارجہ کے پریس آفس کا حوالہ دیا۔

اس سفارت کار کے خلاف شکایت کنندہ خاتون کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات سے مطمئن ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اس خاتون کا کہنا تھا کے اس کے ساتھ ” کسی حد تک انصاف کیا گیا ہے۔‘‘

جرمنی کی ساکھ کو نقصان

ان تحقیقات کے نتائج کے باوجود پاکستان میں جرمنی کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔ کئی سال تک کراچی میں تعینات رہنے والے ایک یورپی سفارتی ذریعے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی اب تک کی معلومات کے مطابق ملزم ”بے داغ ساکھ‘‘ رکھتا تھا۔ تاہم اس ذریعے نے متنبہ کیا، ”شراب کی وجہ سے ہونے والی پھسلن کے بھی دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔ میں کہوں گا کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں اس طرح کا واقعہ اور بھی زیادہ نقصان دہ ہے۔‘‘

انہیں خدشہ ہے کہ مغربی ممالک کے مخالف انتہاپسند اس واقعے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ وہ آسانی سے شراب اور مبینہ جنسی بدسلوکی کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو مغرب نے ہمیں یہی کچھ دیا ہے۔

ادھر کراچی میں اس جرمن سفارت کار کو واپس برلن بلائے جانے کی خبر تیزی سے پھیل گئی۔ اس فیصلے کو غیر ملکی سفارت کاروں کے لیے ایک ایک پیغام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ اگر وہ کچھ غلط کریں گے تو انہیں اس کا جواب دینا ہو گا۔

سکریپ فیسٹ کی منتظم عروہ خان نے ایک جذباتی کال میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ میری زندگی کا سب سے خوشگوار دن ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سات ماہ کے دوران لوگوں نے انہیں خبردار کیا تھا کہ وہ جرمن وزارت خارجہ کا مقابلہ نہ کریں یہ خطرناک ہے۔ تاہم عروہ خان نے فخر سے کہا، ”ہم نے یہ کر لیا، ہم جیت گئے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں