خیبر پختونخوا: پولیس پر دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے اہل کاروں پر ہلاکت خیز حملوں کے ردِ عمل میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں بھی تیزی دیکھنے میں آئی ہے جب کہ دوسری جانب بالخصوص قبائلی علاقوں میں پولیس کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

سیکیورٹی اداروں کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو مہینوں کے دوران 64 مبینہ عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں جب کہ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ رواں سال 50 سے زیادہ اہل کار گھات لگا کر قتل اور دہشت گردی کے دیگر واقعات میں ہلاک ہوچکے ہیں۔

سیکیورٹی اداروں کی کارروائیاں

سیکیورٹی اداروں کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جون کے آخری ہفتے میں فورسز نے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے 21 دہشت گردوں کو ہلاک کیا تھا۔

بیان کے مطابق پچھلے ایک مہینے میں تقریباً 41 دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہ گیا جن میں سے 5 جانی خیل، 24 وزیرستان، 10 بلوچستان اور 3 کلاچی میں مارے گئے ہیں۔ان اعداد و شمار کے مطابق اداروں کی کارروائیوں میں مجموعی طور پر مئی اور جون کے دو مہنیوں کے دوران 64 سے زائد دہشت گرد ہلاک ہوچکے ہیں۔

سیکیورٹی اداروں کے مطابق عسکریت پسندوں کے خلاف سب سے زیادہ کارروائیاں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں کی گئی ہیں ۔ گزشتہ کئی ماہ سے ان دونوں قبائلی اضلاع میں تواتر کے ساتھ پولیس اور عام لوگوں پر عسکریت پسندوں حملے ہورہے تھے۔

پولیس اہل کاروں پر حملے

خیبرپختونخوا پولیس کے انسپکٹر جنرل(آئی جی) معظم جاہ انصاری نے پیر کو ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں خیبر پختونخوا پولیس کو سب سے زیادہ مالی اور جانی نقصان ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2022 کے پہلے 6 ماہ کے دوران خیبر پختونخوا کے 54 اہلکار ہلاک ہوئے جب کہ 2006 سے لے کر اب تک جان دینے والے اہل کاروں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

آئی جی خیبر پختونخوا کے مطابق رواں سال پولیس کے خلاف نامعلوم حملہ آوروں کی کارروائیوں میں 56 اہل کار زخمی بھی ہوچکے ہیں۔

قبائلی اضلاع میں سیکیورٹی اہل کاروں پر حملوں میں اضافہ

حکومتی دعوؤں کے برخلاف خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں بالخصوص قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کی کارروائیاں اور پر تشدد واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کارروائیوں میں عسکریت پسندوں کی زیادہ تر توجہ شمالی اور جنوبی وزیرستان پر رہی ہے۔

ایک طرف سیکیورٹی فورسز کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ دہشت گرد وزیرستان ہی میں مارے جا چکے ہیں تو دوسری طرف عام لوگوں اور سیکیورٹی فورسز بالخصوص پولیس اہل کاروں پر زیادہ تر ہلاکت خیز حملے بھی ان ہی دو اضلاع میں رونما ہوئے۔

شمالی وزیرستان میں 28 جون بروز منگل انسداد پولیو مہم میں شامل اہل کاروں پر نامعلوم عسکریت پسندوں کے حملے میں دو پولیس اہل کار اور ایک پولیو رضاکار کی ہلاکت ہوئی۔ اس دوران ملحقہ جنوبی وزیرستان کے مرکزی انتظامی شہر وانا میں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے انسداد دہشت گردی پولیس کے سب انسپکٹر موسی خان سلیمان خیل کو قتل کر دیا تھا ۔

اس واقعے سے ایک ہفتہ قبل وانا بازار میں پولیس اہل کار سعید اللہ کو ڈیوٹی کے انجام دہی کے دوران پیدل آنے والے ایک مسلح شخص نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیاتھا۔

ان دونوں واقعات سے پہلے وانا بازار میں ڈیوٹی پر موجود ایک اور اہل کار کو رات کے وقت نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ پولیس اہل کار کے ساتھ موجود ان کا دوست بھی گولیوں کی زد میں آکر ہلاک ہو گیا تھا۔اسی طرح ضلع خیبر میں بھی نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پولیس اہلکار قوت خان مارے گئے تھے۔

پیر کو ہونے والے ایک حملے میں خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ٹانک کے علاقے نصران کے قریب فائرنگ سے دو پولیس اہل کار موقعے پر ہلاک ہوگئے۔ ضلعی پولیس افسر کے مطابق نوید اور حمید نامی دونوں اہل کار ڈیوٹی پر نہیں بلکہ ذاتی کام کے سلسلے میں ملازئی سے ٹانک واپس آرہے تھے کہ تین مسلح افراد نے اسلحہ کی نوک پر ان سے موبائل اور نقدی چھین لی تھی۔

دہشت گردوں کے حملوں میں اضافے کی وجہ؟

سیاسی دفاعی اور قبائلی امور کے تجزیہ کاروں کی رائے میں مبینہ طالبان عسکریت پسند افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں روایتی خاصہ دار فورس کی جگہ رائج پولیس نظام کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس کے پیچھے ان کا اصل مقصد حکومتِ پاکستان کو قبائلی علاقے کے صوبے میں انضمام کے فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرنا ہے۔

کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اپریل کے اواخر سے سرحد پار افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جاری مذاکرات میں مصالحت کے لیے قبائلی علاقوں کی سابقہ حیثیت کی بحالی اور ان علاقوں سے افواجِ پاکستان کے مکمل انخلا کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ طالبان کے ان دونوں مطالبات کو مسترد کر چکے ہیں۔

پشاور یونیورسٹی کے ’انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ کونفلکٹ اسٹڈیز ‘ کے سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر جمیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں پولیس اہل کار پیش پیش ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا دہشت گردی کے واقعات کے مقدمات کے درج کرنے سے لے کر ملزمان کی گرفتاری ، چالان کی تیاری اور عدالتی کارروائی جیسی ذمے داریاں پولیس ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس محکمے کے اہل کار عسکریت پسندوں کے نشانے پر ہوتے ہیں۔

سابق سیکریٹری داخلہ اور ریٹائرڈ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس سید اختر علی شاہ کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقے کسی وقت میں عسکریت پسندوں کے محفوظ پناہ گاہیں تھی۔ اسی وجہ سے یہ عسکریت پسند ان علاقوں میں پولیس کے نیٹ ورک سے پریشان ہیں اور اسی بنیاد پر ان دہشت گرد اب ان علاقوں میں پولیس اہل کاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ قبائلی اضلاع کے انتظامی طور پر صوبے میں ضم ہونے سے قبل مقامی خاصہ دار فورس ان علاقوں کے نظم و نسق اور نفاذِ قانون کی ذمے داری ادا کرتی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں