ایران میں 40 برس بعد خواتین کو سٹیڈیم میں میچ دیکھنے کی اجازت

تہران (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایران کی سرکاری میڈیا کے مطابق 1979 میں ملک میں اسلامی انقلاب کے بعد سے یہ پہلی مرتبہ ہے جب خواتین نے مقامی لیگ میچ سٹیڈیئم میں جا کر دیکھا۔

جمعرات کی شب تہران کے آزادی سٹیڈیم میں بیٹھ کر تقریباً پانچ سو خواتین نے میچ دیکھا۔

ملک کی حکومت کی جانب سے مذہبی بنیاد پر عائد کی جانے والی سختیوں کے تحت خواتین مردوں کے میچز دیکھنے نہیں جا سکتی تھیں۔

مردوں کا میچ دیکھنے کی کوشش کے الزام میں مقدمے کی زد میں آنے والی 29 سالہ سارہ خدایاری نے 2019 میں خود کو آگ لگا لی تھی جس سے ان کی موت ہو گئی۔ اس واقعے کے نتیجے میں ہونے والے ہنگامے کے بعد حکومت نے کچھ نرمی کا مظاہرہ کیا تھا۔

خدا یاری جس ٹیم کی حامی تھیں اور جس طرح خواتین کے حقوق سے متعلق جدوجہد کی وہ مثال بن کر ابھریں، انہیں ’بلو گرل‘ کے طور پر جانا جانے لگا۔

ایران کی متعدد ویب سائٹس کا دعویٰ ہے کہ جمعرات کے میچ میں خواتین کی شمولیت کا فیصلہ بین الاقوامی دباؤ کے بعد آیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ فٹ بال کے عالمی نگران ادارے فیفا نے ایران کو خط لکھ کر کہا تھا کہ وہ مزید خواتین کو سٹیڈیم میں آ کر میچ دیکھنے کی اجازت دیں۔ ان سے کہا گیا تھا کہ خواتین کو میچ دیکھنے سے روکنا بین الاقوامی فٹبال کے رتبے کے خلاف ہے۔

استقلال اور میس کرمان ٹیموں کے درمیان میچ دیکھنے آنے والے شائقین میں خواتین اور مردوں کے بیٹھنے کا انتظام الگ الگ کیا گیا تھا۔ شائقین نے میچ کے دوران ٹیموں کے پرچم لہرائے، اپنی پسندیدہ ٹیموں کے رنگ کے کپڑے پہنے اور خدا یاری کی یاد میں ’بلو گرل‘ کے نعرے بھی لگائے۔

سوشل میڈیا پر بھی خدا یاری کی یاد میں #Blue_Girl کے ساتھ متعدد پیغامات پوسٹ کیے گئے۔

ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا ’بلو گرل نے اپنی جان کی قربانی دی تاکہ متعدد بلو گرلز سٹیڈیم میں داخل ہو سکیں۔‘

حالانکہ باضابطہ طور پر ایران میں خواتین پر میچز دیکھنے جانے پر پابندی نہیں ہے لیکن انہیں سٹیڈیم میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا یے۔

ایران میں خواتین نے اس سے قبل سٹیڈیم سے انٹرنیشنل میچز تو دیکھے ہیں لیکں مقامی ٹیموں کا میچ نہیں دیکھ سکی تھیں۔

اس سے قبل جو مردوں کا میچ خواتین سٹیڈیم سے دیکھ سکی تھیں وہ تین برس قبل ورلڈ کپ کوالیفائیر میچ تھا۔

سنہ 2018 میں متعدد خواتین کو فٹ بال میچ دیکھنے کے لیے سٹیڈیم میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا جبکہ متعدد خواتین نقلی بال اور داڑھی لگا کر میچز دیکھنے میں کامیاب بھی رہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں