پرزن کیمپ 120: جب روسی جیل سے 50 یوکرینی جنگی قیدیوں کی جلی ہوئی لاشیں ملیں

کیف (ڈیلی اردو/بی بی سی) 29 جولائی کی صبح جیل ’پرزن کیمپ 120‘ میں 50 سے زیادہ یوکرینی قیدی ایک حملے میں ہلاک ہوئے۔ یہ کیمپ یوکرین کے اس حصے میں واقع تھا جہاں روس کا کنٹرول تھا۔

روس اور یوکرین اس حملے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔ فارنزک ماہرین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس واقعے پر روس کے مؤقف میں مسائل ہیں۔

جیل کے اندر کے مناظر بھیانک تھے۔ ویڈیو میں جلی ہوئی لاشیں دکھائی دیں جو لوہے کے بیڈز کے ساتھ پڑی تھیں۔ باہر ایک کنکریٹ سلیب پر مزید لاشیں موجود تھیں۔

اس حملے میں، جس نے یوکرین میں سب کو ہی ہیبت زدہ کر دیا تھا، یوکرین کے 50 جنگی قیدی ہلاک اور 73 زخمی ہوئے۔

یہ ہلاکتیں دونیتسک پیپلز ریپبلک کے علاقے میں ہوئیں جو روس کے زیر کنٹرول ہے۔ یوکرین کے مشرق میں 2014 سے جنگ کے آغاز سے ہی یہ گاؤں روسی حمایت یافتہ باغیوں کے کنٹرول میں تھا۔

روسی ذرائع کی جانب سے منظر عام پر آنے والی تصاویر کا جائزہ لینے کے بعد ہم نے ہتھیاروں اور فارنزک ماہرین سے دریافت کرنے کی کوشش کی کہ یہاں کیا ہوا اور کیا نہیں۔

ہم نے متعدد سابق قیدیوں کے انٹرویو بھی کیے جن کو حملے سے چند ہفتے قبل ہی رہا کیا گیا تھا۔ ان افراد نے حملے سے قبل جیل کے اندر کی زندگی کی دردناک تصویر کھینچی۔

روس کی وزارت دفاع نے بی بی سی کی جانب سے بیان دینے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

سرکاری طور پر اولینوکا پینل کالونی کے نام سے جانی جانے والی اس جیل کو سنہ 1999 میں قائم کیا گیا تھا۔

اس وقت اس جیل میں ہزاروں قیدی ہیں جن میں عام شہری بھی ہیں اور یوکرین کے جنگجو بھی جن کو روسی حمایت یافتہ فوجیوں نے گرفتار کیا۔ ان میں ازوف رجمنٹ کے سینکڑوں جنگجو بھی شامل ہیں۔

رضاکاروں کی یہ بٹالین سنہ 2014 میں قائم کی گئی تھی جس کی بنیاد دائیں بازو کے نظریات سے جڑی تھی۔ بعد میں اسے یوکرین نیشنل گارڈ کا حصہ بنا لیا گیا۔

سال کے آغاز میں یوکرین کے ماریوپل شہر کے طویل اور ناکام دفاع کے دوران، جب روسی فوج کو سٹیل ورکس کا محاصرہ کرنا پڑا تو ان جنگجوؤں کی شہرت بہترین لڑاکا سپاہیوں کے طور پر ہوئی۔

یوکرین کے حکام اور روس کی جانب سے جاری فہرست کے مطابق زیادہ تر جیل میں ہلاک ہونے والوں کا تعلق اسی رجمنٹ سے تھا۔

اس واقعے کا اعلان کرتے ہوئے روسی فوج نے یوکرین پر حملے کا الزام عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ اس حملے میں امریکی راکٹ سسٹم ہمرز استعمال کیا گیا۔

روس کی وزارت دفاع کے ترجمان لفٹیننٹ جنرل ایگور کوناشینکوو نے سرکاری ٹی وی پر کہا تھا کہ ’یوکرین کے شہریوں کے خلاف بربریت کی تمام تر سیاسی، مجرمانہ اور اخلاقی ذمہ داری صدر زیلنسکی اور واشنگٹن پر عائد ہوتی ہے جو ان کی حمایت کرتا ہے۔‘

روسی حکام نے مبینہ طور پر جائے وقوعہ سے حاصل کیے گئے ہمرز راکٹس کے ٹکڑے بھی دکھائے۔

ڈی پی آر کے روسی حمایت یافتہ سربراہ ڈینس پشیلن نے دعویٰ کیا کہ ’یوکرین کی فوج نے اپنے ہی سپاہیوں کو جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے قتل کیا۔‘ خصوصاً، عام شہریوں پر حملے، جو پشیلن کے دعوے کے مطابق خود صدر زیلنسکی کے حکم پر کیے گئے تھے۔

پشیلن نے روسی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ’ان قیدیوں کے بیانات ہی ثبوت تھے اور یوکرین نے اسے تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

حملے کے ایک دن بعد دھماکے کے مقام کی سیٹلائٹ تصویر میں ایک تباہ عمارت شدہ دیکھی جا سکتی ہے۔

سابق قیدیوں کے مطابق یہ عمارت ایک ایسے انڈسٹریل علاقے میں تھی جو اس بیرک سے دور تھی جہاں ان کو رکھا گیا تھا۔

بی بی سی نے ایک درجن ہتھیاروں اور فارنزک کے ماہرین سے رابطہ کیا اور ان کو یہ تصاویر اور ویڈیوز دکھائیں تاکہ روس کے اس دعوے کا جائزہ لیا جا سکے کہ یوکرین نے راکٹ سے اس کیمپ کو نشانہ بنایا۔

ان کے نتائج کافی حد تک ایک دوسرے سے ملتے تھے۔

بوب سیڈن برطانوی فوج میں پرنسپل ایمونیشن ٹیکنیکل افسر رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس عمارت کو پہنچنے والا نقصان کسی راکٹ سسٹم سے نہیں ہو سکتا۔

ان کے مطابق اس عمارت میں ہونے والی تباہی ایک مخصوص مقام پر تھی جبکہ یہ عمارت بذات خود اپنی جگہ کھڑی رہی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمرز جیسا راکٹ سسٹم زیادہ وسیع تباہی کرتا ہے۔

ڈاکٹر شیہان ہیٹریارچی لندن کے امپیریئل کالج میں سرجن اور ٹراما ڈائریکٹر ہیں۔ وہ توجہ دلاتی ہیں کہ جیل کے اندر کی ویڈیوز میں ہلاک ہونے والوں کے جسم ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوئے تھے۔

ڈاکٹر صلیحہ احسن کو جنگی علاقوں میں کام کا کافی تجربہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ جو بھی طریقہ استعمال کیا گیا اس میں آگ استعمال ہوئی یعنی جلایا گیا۔

برطانیہ کی ڈیفینس اکیڈمی میں دھماکہ خیز مواد کی تکنیک کے ماہر پیٹ نورٹن کہتے ہیں کہ محدود شواہد کے مطابق غالباً کوئی دھماکہ خیز مواد کسی ایندھن کے ساتھ استعمال ہوا جو عمارت میں رکھا گیا۔

ایسے کسی بھی طریقے کو کیوں استعمال کیا گیا؟ ایک ویب سائٹ سی اے ٹی یو ایکس او کے مطابق آگ کے ذریعے شواہد کو مٹانا مقصد ہو سکتا ہے۔

بی بی سی کو ایک ایسا ثبوت بھی موصول ہوا جس کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔ یہ ایک فون کال ہے جس کو مبینہ طور پر یوکرین کی خفیہ ایجنسی نے ریکارڈ کر لیا۔

اس ریکارڈنگ کو یوکرین نے اس وقت جاری کیا جب روس نے الزام لگایا کہ اس حملے کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔

اس کال میں سنا جا سکتا ہے کہ دو نامعلوم افراد بات چیت کر رہے ہیں کہ اس مخصوص رجمنٹ کے دو سو رضاکاروں کو بیرک سے ایک الگ تھلگ ویئر ہاؤس میں حملے سے دو دن قبل منتقل کیا گیا تھا۔ان میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ ’روسی ’گریڈ‘ میزائل ہوا میں فائر کیے گئے تاکہ ویئر ہاؤس میں دھماکے کی آواز زیادہ دور نہ پھیلے اور دھماکہ خیز مواد پہلے سے ہی لگا دیا گیا تھا۔‘

بی بی سی کی جانب سے مزید تفصیلات کی درخواست پر یوکرینی حکام نے جواب دینے سے معذرت کر لی۔

اس مقام تک رسائی کے بغیر حتمی طور پر یہ کہنا ناممکن ہے کہ اس جیل میں کیا ہوا تھا لیکن عمارت کے باہر کی تصاویر کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ قیدیوں کو ابتر حالات میں رکھا گیا تھا۔

مکینزی انٹیلیجنس سروسز کے ماہرین کہتے ہیں کہ عمارت کے باہر موجود چند لاشوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کی موت آگ لگنے سے پہلے ہو چکی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ ان افراد کے جسم لاغر تھے۔ ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیل میں قیدیوں کا کس قدر کم خیال رکھا جاتا تھا۔‘

سیٹلائٹ میپنگ کمپنی ایس او اے آر کے تجزیہ کار دھماکے سے قبل کے ایک اور ثبوت کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں۔ یہ مٹی کے نشانات ہیں۔

ایک بریفنگ کے دوران یوکرین کے حکام نے صحافیوں کو بتایا کہ تصاویر سے پتا چلتا ہے کہ قبریں کھودی گئی تھیں تاکہ ہلاک ہونے والوں کو دفنایا جا سکے تاہم یہ تصاویر قبروں کی موجودگی یا ایسے کسی منصوبے کو ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

ہم نے اس جیل کے سابق قیدیوں سے بھی بات کی۔ ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان کو اچانک کیوں رہا کیا گیا۔

ان سب نے ہی جیل میں خراب ماحول کی نشاندہی کی اور بتایا کہ جیل کے گارڈز بُرا سلوک کرتے تھے۔

ان کے مطابق پہلے چند ہفتے بہت مشکل تھے۔ کونسٹنٹائن ویلچکو ایک رضاکار ڈرائیور ہیں جن کو ماریوپل سے لوگوں کو انخلا میں مدد کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہر وقت قیدیوں کو پیٹنے کی آوازیں آتی تھیں۔‘

ان تمام سابق قیدیوں نے کہا کہ بیرک میں منتقلی کے بعد حالات کچھ بہتر ہوئے لیکن ان کو ہر وقت خوف رہتا تھا کہ انھیں سزا دی جا سکتی ہے۔

رسلن ایک انجینیئر ہیں جنھیں ماریوپل میں جھڑپوں کے دوران یوکرینی شہریوں کے انخلا میں مدد پر 100 روز تک حراست میں رکھا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جیل کے سربراہ نے مجھے بتایا تھا کہ ہم سب اس کے غلام ہیں۔‘

ان سابق قیدیوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان پر تشدد کیا جاتا تھا اور جیل کے حالات کافی بُرے تھے۔ ان کے مطابق کھانے میں آدھا گلاس پانی، ڈبل روٹی کا ٹکڑا اور سیریل کے کچھ چمچ دیے جاتے تھے اور یوں خوراک کو بچایا جاتا تھا۔

مگر تمام قیدیوں سے زیادہ بُرا سلوک ازوف جنگجوؤں کے ساتھ برتا جاتا تھا۔

یوکرینی پولیس افسر وکٹر (شناخت محفوظ رکھنے کے لیے فرضی نام) کو یاد ہے کہ جب تمام قیدی ڈاکٹر سے ملنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ ایک 20 سالہ ازوف جنگجو بھی قطار میں تھا۔ ’اسے اس کی آمد پر مارا پیٹا گیا۔ یہ اتنا دردناک تھا کہ وہ اپنے گھٹنوں سے اُٹھ نہیں پا رہا تھا۔‘

’پھر جیل کا ایک وارڈن چِلایا: ’دیکھو، وہ نیا گوشت لائے ہیں!‘ انھوں نے اس سے اس کے ہاتھوں سے گٹر صاف کروایا۔‘

وکٹر بتاتے ہیں کہ ایک ماہ بعد سینکڑوں ازوف جنگجوؤں کو قیدخانے لایا گیا۔ انھوں نے 16 سے 17 مئی کے دوران روسی افواج سے لڑائی کے بعد ہتھیار ڈال دیے تھے اور انھیں براہ راست پریزن 120 منتقل کیا گیا تھا۔

وکٹر کے مطابق ان کی آمد پر انھیں الگ بیرک میں رکھا گیا جہاں وہ باقی قیدیوں سے دور تھے۔

تمام سابقہ قیدیوں کے مطابق ازوف قیدیوں پر بے رحمانہ رشدد کیا گیا۔ رسلن کے مطابق ’وہ ان سے شدید نفرت کرتے تھے۔‘

دھماکے کے بعد ایک انٹرویو میں رسلن نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انھوں نے سنا تھا کہ ان پر کوئی حملے کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی۔ ’میں نے بار بار روسی فوج اور ڈی پی آر گارڈز کو یہ کہتے سنا کہ اگر وہ تمام ازوف قیدیوں کو ایک بیرک میں رکھ کر ان پر راکٹ برسائیں۔‘

اس گروہ کی آمد کے کچھ دن بعد 18 مئی کو انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس (آئی سی آر سی) نے بتایا کہ انھیں جنگی قیدیوں کی ضروریات دیکھنے کے لیے بلایا گیا تھا مگر کسی بھی قیدی سے انفرادی طور پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

ایک ماہ بعد بھی ہلاک شدگان کے لواحقین کو اپنے پیاروں کی لاشیں یا قیدخانے تک رسائی نہیں دی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ روس کی جانب سے دی گئی ناموں کی فہرست پر یقین نہیں کرتے۔

یوکرین نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ تحقیقات کے لیے اس تک رسائی ملنی چاہیے۔

صدر زیلنسکی نے اسے ’جان بوجھ کر جنگی جرائم‘ میں ملوث ہونا قرار دیا ہے جبکہ ریڈ کراس دھماکے میں زخمی ہونے والوں کو فوری طور پر طبی امداد دینے کی کوششوں میں ہے۔

اس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’زخمیوں کو زندگی بچانے والی طبی امداد دینا ہماری ترجیح ہے اور یہ بھی کہ مرنے والوں کی لاشیں ایک باعزت طریقے سے ان کے لواحقین کے حوالے کی جائیں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں