رانا ثناء اللہ کا دہشت گردوں سے متعلق بیان، ایک نئی بحث چھڑ گئی

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کی تعداد سات ہزار سے دس ہزار تک ہوسکتی ہے۔ ان کے اس بیان پر پاکستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشنز سے متعلق بحث چھڑ گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جن دہشت گردوں نے ماضی میں ہتھیار ڈال دیے تھے، انہوں نے بھی ٹی ٹی پی میں دوبارہ شمولیت اختیار کر لی ہے۔ ان کے اس بیان کو کئی حلقے انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ اس بیان نے نے حکومتی آپریشنز میں کیے گئے دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔ جب کہ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ صرف ایک سیاسی بیان ہے، جس کا مقصد خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا ہے۔

رانا ثناء اللہ نے یہ انکشاف ڈان نیوز ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں منگل کو کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ ان دس ہزار دہشت گردوں کے ساتھ ان کے پچیس ہزار فیملی ممبرز بھی ہیں۔ انہوں نے اس صورتحال کا ذمہ دار خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور ان کے انسداد دہشت گردی کے ادارے کو ٹھہرایا اور دعویٰ کیا کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو کنٹرول کریں۔

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کبھی بھی بکھری نہیں تھی اور افغان طالبان کی کامیابی نے ان کے حوصلوں کو بلند کیا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان نے طالبان جنگجوؤں کے خلاف کئی فوجی آپریشن کیے ہیں، جس میں حکام کئی دہشت گردوں کو ہلاک اور زخمی کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ کئی بار تو یہ بھی کہا گیا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔
ایسے آپریشنز پر تنقید کرنے والے اب رانا ثنا اللہ کے بیان کو سند کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے پختون دانشور اور ڈاکٹر سید عالم محسود کا کہنا ہے کہ وہ تو پہلے ہی کہتے تھے کہ ان فوجی آپریشنز کا نشانہ دہشت گرد کبھی نہیں رہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”گزشتہ دو عشروں میں ٹی ٹی پی کے 86 سے زیادہ ٹاپ کمانڈرز مارے گئے ہیں۔ ان میں کسی ایک کو بھی فوجی آپریشن کے دوران نہیں مارا گیا بلکہ وہ سب ڈرون حملے میں مارے گئے۔ ایک دہشت گرد عبداللہ محسود اپنے ہی بم پھٹنے کی وجہ سے ہلاک ہوا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان فوجی آپریشنز نے دہشت گردوں کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچایا۔‘‘

ڈاکٹر سید عالم محسود نے ان فوجی آپریشنوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا نشانہ عام شہری بنے اور ان کی وجہ سے عام شہریوں کے حصے میں ذلت اور رسوائی آئی۔ ”ان آپریشنوں میں میر علی اور میران شاہ کے بازاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ لوگوں کو ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ جگہ جگہ فوجی چیک پوسٹیں قائم کر کے لوگوں کو ذلیل و خوار کیا گیا۔‘‘

افغان طالبان کی کامیابی اور ٹی ٹی پی

کئی مبصرین کا خیال ہے کہ افغان طالبان کی کامیابی کے بعد، کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں میں تیزی آئی ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں عسکریت پسند تنظیموں اور عسکریت پسندی کے امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے حوصلے افغان طالبان کی کامیابی کے بعد بہت زیادہ بڑھے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس تعداد میں کچھ عسکریت پسند پرانے ہیں جبکہ بہت سارے نئے عسکریت پسندوں نے بھی ٹی ٹی پی کو جوائن کیا ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اگر افغان طالبان لڑ کر وہاں پر ایک شرعی نظام لانے کی کوشش کر سکتے ہیں تو پھر پاکستان میں بھی طالبان لڑ کر کر نظام کو بدل سکتے ہیں۔‘‘

دہشت گردی، تعداد اور علاقائی کنٹرول

سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کرنے کے لیے اتنی بڑی تعداد ضروری نہیں ہے۔ ”دہشت گردی کرنے کے لیے اگر 500 طالبان بھی ہوں، تو وہ پھر بھی دہشت گردی کر کے ریاست کی رٹ کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ تاہم اگر وہ ماضی کی طرح علاقوں کو کنٹرول کرنا چاہیں اور وہاں اپنی عملداری نافذ کرنا چاہیں، تو بڑی تعداد ان کو علاقوں کو کنٹرول کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔‘‘

پاکستانی حکام کی غلطی

سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے، پاکستانی حکام نے بھی وہی غلطی کی جو افغانستان میں امریکی افواج نے کی تھی۔ ”امریکہ نے افغان طالبان کو اقتدار سے باہر کیا اور اس کے بعد آخری حد تک ان کا پیچھا نہیں کیا اور اور یہ سوچ کر مطمئن ہو گئے کہ اب یہ معاملہ کسی حد تک ختم ہو گیا ہے۔‘‘

سیاسی بیان

کچھ مبصرین کا دعویٰ ہے کہ کیونکہ رانا ثنا اللہ پاکستان میں متنازعہ اور غیر سنجیدہ بیانات کے حوالے سے میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں، ان کے اس بیان کو سیاسی سمجھنا چاہیے۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارے برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجیم الدین کا کہنا ہے کہ رانا ثناء اللہ کا بیان بنیادی طور پر خیبرپختونخوا حکومت کو ہدف تنقید بناتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”رانا ثناءاللہ کا بیان ایک طرف خیبر پختونخوا کی حکومت کو ہدف تنقید بنا رہا ہے اور ان پر ساری ذمہ داری ڈال رہا ہے جبکہ دوسری طرف وہ افغان طالبان کو بھی اس بیان کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ وہ کالعدم تحریک طالبان کے دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام ہوگئے ہیں، جو سرحد عبور کر کے پاکستان میں حملے کر رہے ہیں۔ تو یہ اندرونی حوالے سے بھی ایک سیاسی بیان ہے اور بیرونی حوالے سے بھی سیاسی بیان ہے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں