دو دن پہلے بیٹے کا انکاؤنٹر: بھارتی مسلمان سیاستدان عتیق احمد بھائی سمیت ڈرامائی حملے میں قتل

نئی دہلی (دیلی اردو/اے پی/اے ایف پی) بھارتی ریاست اتر پردیش میں ملکی پارلیمان کے ایک سابق رکن کو ان کے بھائی سمیت ایک ڈرامائی حملے میں قتل کر دیا گیا۔ مقتول سیاست دان اغوا کے جرم میں سزا یافتہ تھے۔ قاتلوں میں سے ایک نے ’جے شری رام‘ کے نعرے بھی لگائے۔

بھارتی ریاست اتر پردیش میں لکھنؤ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ریاستی حکام نے آج اتوار 16 اپریل کے روز بتایا کہ دوہرے قتل کا یہ واقعہ شہر پریاگراج میں کل ہفتے کی رات پیش آیا۔ پریاگراج ماضی میں الہ آباد کہلاتا تھا۔

دونوں مقتول مسلمان تھے اور ان میں سے عتیق احمد، جو ایک مقامی سیاست دان کے طور پر ماضی میں بھارت کی قومی پارلیمان کے ایوان زیریں کے رکن بھی رہ چکے تھے، اغوا کے جرم میں سزا یافتہ بھی تھے۔ اس کے علاوہ عتیق احمد پر قتل اور حملوں کے الزامات بھی تھے اور ان کے خلاف مقدمات کی سماعت ابھی جاری تھی۔

حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے عتیق احمد کے ہمراہ ان کے بھائی کو بھی قتل کر دیا، جن کا نام پولیس نے اشرف احمد بتایا ہے۔

ڈرامائی حملہ ٹی وی پر لائیو بھی دیکھا گیا

بھارتی حکام کے مطابق عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد ہفتے کی رات پولیس کی حفاظت میں میڈیکل چیک اپ کے لیے ایک مقامی ہسپتال جا رہے تھے کہ ان کو تین ایسے افراد نے نشانہ بنایا، جنہوں نے بظاہر صحافیوں کے طور پر ان تک رسائی حاصل کی تھی۔

مقتولین کو شہر پریاگراج میں بہت قریب سے فائرنگ کر کے قتل کیا گیا اور حکام کے مطابق یہ حملہ بظاہر اتنا ڈرامائی نوعیت کا تھا کہ یہ ٹی وی پر لائیو بھی دیکھا گیا۔ یہ دوہرا قتل ٹی وی پر لائیو کس طرح دیکھا گیا، حکام نے اس کی کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔ ایسا شاید اس وجہ سے ہوا کہ تینوں حملہ آور بظاہر انٹرویو کے لیے صحافیوں کے طور پر مقتولین کے قریب پہنچے تھے۔

حملہ آوروں کی گرفتاری اور جے شری رام کے نعرے
ریاستی حکام نے بتایا کہ اس دوہرے قتل کے بعد تینوں حملہ آوروں نے موقع پر ہی خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ ان میں سے کم از کم ایک حملہ آور نے فائرنگ کے بعد ‘جے شری رام‘ اور ‘جے رام جی‘ کے نعرے بھی لگائے۔

بھارت میں یہی مذہبی نعرے ہندو قوم پسندوں کی مسلمانوں کے خلاف مہم کے دوران ان کے بنیادی نعرے بن چکے ہیں۔ ریاست اتر پردیش میں ملکی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہی کی حکومت ہے۔

اس حملے کے بعد رمیت شرما نامی ایک پولیس افسر نے بتایا کہ تینوں حملہ آور ایک موٹر سائیکل پر سوار ہو کر مقتولین کے قریب تک پہینچے تھے۔ رمیت شرما کے مطابق، ”حملہ آور یہ کہہ کر مقتولین کے قریب پہنچے کہ وہ ان کے ساتھ بہت مختصر سی گفتگو ریکارڈ کرنا چاہتے تھے اور اسی دوران انہوں نے دونوں بھائیوں پر فائرنگ شروع کر دی۔ دونوں کو گولیاں سروں میں لگی تھیں اور یہ سب کچھ صرف چند لمحوں میں ہوا۔‘‘

دو روز قبل ہونے والا مبینہ ’پولیس مقابلہ‘

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ اس دوہرے قتل سے صرف دو روز قبل جمعرات کے دن مقتول عتیق احمد کا ایک نوجوان بیٹا اور ایک اور شخص پولیس کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ ان دونوں پر ایک حالیہ قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کا الزام تھا۔ پولیس کے مطابق یہ دونوں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

مقتول عتیق احمد کو، جن کی عمر 60 برس تھی، 2019ء میں اس لیے جیل جانا پڑا تھا کہ انہیں ایک عدالت نے اغوا کے الزام میں سزا سنا دی تھی۔ وہ چار مرتبہ اتر پردیش کی ریاستی اسمبلی کے رکن رہے تھے اور 2004ء میں بھارت کی قومی پارلیمان کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔

عتیق احمد اور ان کے بھائی کے مشترکہ وکیل وجے شرما نے اس دوہرے قتل کو بہت بڑے دھچکے کا باعث اور پولیس کی طرف سے مقتولین کی سلامتی کو یقینی بنانے میں واضح ناکامی کا ثبوت قرار دیا ہے۔

اتر پردیش میں سیاسی اپوزیشن کی کئی جماعتوں نے بھی اس دوہرے قتل کو سکیورٹی میں غفلت اور ناکامی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں