عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطل، سائفر میں گرفتار

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سائفر کے مقدمے میں تیس اگست کو پیشی تک عمران خان کو اٹک جیل میں ہی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مخالفین عمران خان کی مقبولیت سے بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔

عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطل کیے جانے کا عدالتی فیصلہ ان کے حامیوں کے لیے خوشی کا ایک مختصر لمحہ ثابت ہوا۔ منگل کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے سزا معطل کیے جانے کے کچھ ہی دیر بعد اسلام آباد کی خصوصی عدالت کا ایک حکم نامہ سامنے آیا، جس میں سابق وزیر اعظم کو سائفر کے مقدمے میں تیس اگست کو عدالت میں پیش کیے جانے تک اٹک جیل میں ہی رکھنے کا کہا گیا۔

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل دو رکنی بنچ نے توشہ خانہ کیس میں پیر کے روز محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کو ٹرائل کورٹ کی طرف سے دی گئ تین سال کی سزا معطل کر دی۔

پی ٹی آئی کے حامی اس فیصلے کے بے تابی سے منتظر تھے اور سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس پر اسلام آباد ہائی کورٹ، اٹک جیل پہنچو اور عمران خان سمیت کئی ٹرینڈز ٹاپ پر رہے۔ اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف نےایکس اسپیسز کا بھی انعقاد کیا، جس کے موضوعات میں “قوم کو مبارک ہو” اور ”کپتان ہمارا” شامل تھے۔

ن لیگ کا رد عمل

پی ٹی آئی کی حریف اور سابق حکمران جماعت مسلم لیگ نون اس عدالتی فیصلے پر چراغ پا نظر آئی۔ پارٹی کے صدر اور سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان کے عدالتی نظام پر زبردست تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے کہا، ”خانہ کعبہ کے عکس والی گھڑی بیچ کے کھانے والے کے سامنے نظام انصاف بے بس ہے۔ چور اور دہشت گردی کی سہولت کاری ہوگی، تو ملک میں عام آدمی کو انصاف کہاں سے ملے گا؟”

انہوں نے مزید کہا، ”لاڈلے کی سزا معطل ہوئی ہے ختم نہیں ہوئی ہے۔ اعلی عدلیہ سے واضح پیغام جائے تو ماتحت عدلیہ یہ نہ کرے تو اور کیا کرے؟ نوازشریف کی سزا کو یقینی بنانے کے لیے مانیٹرنگ جج لگایا گیا تھا۔ چیف جسٹس کا گڈ ٹو سی یو اور وشنگ یو گڈ لک کا پیغام اسلام آباد ہائی کورٹ تک پہنچ گیا۔ فیصلہ آنے سے پہلے ہی سب کو پتہ ہو کہ فیصلہ کیا ہوگا تو یہ نظام عدل کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔‘‘

ن لیگ کے دور میں اٹارنی جنرل رہنے والے معروف قانون دان اشتراوصاف کا کہنا تھا، ”چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کی معطلی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انہیں معافی مل جائے گی۔ جب تک یہ سزا قائم ہے وہ نااہل ہی رہیں گے۔ تین سال سے کم سزا ہو تو ضمانت کا دیا جانا ایک معمول کی عدالتی کارروائی ہے۔ آرٹیکل 62 ایچ کے مطابق اگر کسی مجرم کو دو سال سے زیادہ سزا ہو جائے تو وہ نااہل ہو جاتا ہے۔‘‘

پی ٹی آئی کی بھاگ دوڑ

معطلی کے فیصلے کے بعد جب ڈی ڈبلیو نے پی ٹی آئی کے ایک رہنما سے دوبارہ ممکنہ گرفتاری کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”دوسرے مقدمات میں ممکنہ گرفتاری کو روکنے کے لئے سپریم کورٹ میں ایک درخواست پہلے ہی دے دی گئی ہے، جس کی آج ممکنہ طور پر سماعت ہو سکتی ہے۔‘‘

پی ٹی آئی کے وکلا کی ٹیم کے ایک رکن انتظار حسین پنجوتھہ نے بھی دو روز قبل ڈی ڈبلیو کو یہی بتایا تھا لیکن اس رپورٹ کے فائل کرنے تک ایسی کوئی درخواست سپریم کورٹ میں سماعت کے لئے نہیں آئی۔

اوچھے ہتھکنڈے

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی پی ٹی آئی کی رہنما ادیبہ نذر کا کہنا ہے کہ عمران خان کی دوبارہ گرفتاری حکومت کی طرف سے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”عمران خان کی دوبارہ گرفتاری انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔ حکومت نے ان پر بوگس مقدمات بنائے ہیں، جس میں حکومت کو شکست ہوگی اور فتح عمران خان کی ہوگی۔‘‘

پی ٹی آئی کے سابق رہنما احمد جواد کا کہنا ہے کہ عمران خان کی دوبارہ گرفتاری حکومتی بوکھلاہٹ ظاہر کرتی ہے، ”یہ عمران خان کی مقبولیت سے بہت ڈرے ہوئے ہیں۔‘‘

ریلیف کا کوئی چانس نہیں

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی رہائی کے دور ودرتک کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ سپریم کورٹ کے ایک وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف کئی مقدمات ہیں، جن کے لئے تفتیش درکار ہوگی۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”اس تفتیش کے لئے پولیس گرفتاری کا تقاضہ کرے گی۔ نیب، دہشتگردی اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے حوالے سے ان پر مقدمات ہیں اور ان میں ان کی رہائی ہونے سے پہلے ہی گرفتاری ہوجائے گی۔‘‘

انعام الرحیم کے مطابق اب عدالتیں بھی ان کو ریلیف نہیں دیں پائیں گی۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ” کئی مقدمات میں ان کی گرفتاری قانونی تقاضہ ہوگی اور عدالت خصوصاً سپریم کورٹ کے لیے اس طرح کے قانونی تقاضے کو نظر انداز کرنا مشکل ہوگا۔ زیادہ تر مقدمات نچلی عدالتوں میں ہیں، جہاں سے ریلیف کے لیے عمران خان ہائی کورٹس جا سکتے ہیں۔ اگر ایسے میں سپریم کورٹ نے مداخلت کی تو پھر سخت تنقید ہوگی۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں