افغانستان میں موجود ’القاعدہ‘ امریکہ پر حملوں کے قابل نہیں ہے؛ حکام کا دعویٰ

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکہ کے خفیہ اداروں نے تازہ جائزے میں کہا ہے کہ امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے شدت پسند تنظیم ’القاعدہ‘ کو افغانستان میں عملی طور پر اتنا کمزور کر دیا ہے کہ اب وہ امریکہ کی سر زمین پر حملے کرنے کے قابل نہیں رہی۔

انسدادِ دہشت گردی کے ادارے ’نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر‘ کی ڈائریکٹر کرسٹین ابی زید نے نائن الیون کی 22 ویں برسی کے موقع پر کہا ہے کہ القاعدہ افغانستان اور پاکستان میں انتہائی کمزور ہو چکی ہے جب کہ دوبارہ اس کی بحالی کا امکان نہیں ہے۔

واضح رہے کہ 22 برس قبل 11 ستمبر 2001 کو القاعدہ کے 19 کارکنوں نے ایک ہی دن امریکہ میں چار مسافر طیارے ہائی جیک کر لیے تھے۔ ان طیاروں سے امریکہ کے سب سے بڑے شہر نیویارک کے تجارتی مرکز ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دو ٹاورز اور ورجینیا میں امریکی محکمۂ دفاع کے مرکز پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا تھا جب کہ ایک مسافر طیارہ ریاست پنسلوانیا کے ایک خالی مقام پر گر کر تباہ ہوا تھا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس طیارے کا نشانہ امریکہ دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی تھا۔ ان حملوں میں لگ بھگ تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

کرسٹین ابی زید نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اب القاعدہ اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔القاعدہ میں اب قائدانہ صلاحیت، گروہی ہم آہنگی، لوگوں کی اس سے وابستگی اور موافق ماحول بھی نہیں رہے۔

کرسٹین ابی زید نے مزید کہا کہ القاعدہ کو کمزور کرنا اس بات کی مثال ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد کے برسوں میں کیا کچھ حاصل کیا ہے۔

اس جائزے سے اخذ کیا گیا نتیجہ اب سے قبل اعلیٰ امریکی حکام کے بیانات سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔

رواں سال مارچ میں محکمۂ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے انسدادِ دہشت گردی کے کوآرڈینیٹر نے کہا تھا کہ امریکہ پر 11 ستمبر 2001 کی طرز کا حملے کا اب تصور نہیں کیا جا سکتا۔

جون میں انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ اگست 2021 میں افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد بھی یہ دہشت گرد گروہ دوبارہ فعال ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکاہے۔

دوسری جانب اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں افغانستان میں القاعدہ اور شدت پسند تنظیم داعش کی موجودگی پر خبردار کیا گیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کے خفیہ اداروں کی رپورٹس پر مبنی ایک رپورٹ جون میں سامنے آئی تھی جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ افغانستان ایک بار پھر القاعدہ کی پناہ گاہ بن گیا ہے، جس نے اپنے قدموں کے نشانات کو صرف کئی درجن ارکان سے بڑھا کر 60 اعلیٰ عہدیداروں تک پہنچا دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے لگ بھگ 400 جنگجو ارکان بھی ہیں۔

عالمی ادارے کی رپورٹ میں مزید خبردار کیا گیا کہ القاعدہ نے کم از کم پانچ صوبوں میں تربیتی کیمپ اور مزید چار صوبوں میں سیف ہاؤس قائم کیے ہیں۔

امریکی حکام نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے جائزے سے اختلاف کیا اور اصرار کیا کہ فوج اور انٹیلی جنس اداروں کے پاس القاعدہ کے کسی بھی ممکنہ بحالی کو دیکھنے کے لیے مناسب صلاحیتیں موجود ہیں۔

امریکی حکام نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو مسترد کیا تھا جب کہ صدر جو بائیڈن نے بھی اس بات پر زور دیا تھا کہ القاعدہ افغانستان میں نہیں ہوگی۔

تاہم کچھ ماہرین القاعدہ کے مکمل ختم ہونے اور اس کے حملوں کی صلاحیت سے متعلق سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں