امریکی قیادت والے اتحاد کی جانب سے حوثی باغیوں کو تنبیہ

واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/نیوز ایجنسیاں) امریکہ کی قیادت میں برطانیہ سمیت کئی مغربی ممالک کے اتحاد نے یمن کے حوثی باغیوں کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے بحیرہ احمر سے گزرنے والے بحری جہازوں پر اپنے حملے بند نہیں کیے تو انہیں اس کے ”نتائج” بھگتنے پڑیں گے۔

ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے غزہ کے موجودہ تنازعے میں حماس کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور نومبر سے لے کر اب تک وہ 20 سے زیادہ مرتبہ بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر حملہ کر چکے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے میزائل، ڈرون، تیز رفتار کشتیاں اور ہیلی کاپٹر تک استعمال کیے ہیں۔

مغربی اتحاد کی وارننگ

امریکہ کی قیادت والے آسٹریلیا، بحرین، بیلجیم، کینیڈا، ڈنمارک، جرمنی، اٹلی، جاپان، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ اور برطانیہ سمیت 12 ممالک پر مشتمل گروپ نے حوثی باغیوں کے لیے ایک باضابطہ وارننگ جاری کی ہے۔

اس بیان پر دستخط کرنے والا مشرق وسطیٰ کا واحد ملک بحرین بھی ہے، جس کے ایران کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں۔

انہوں نے بحیرہ احمر میں جاری حوثی باغیوں کے حملوں کو ”غیر قانونی، ناقابل قبول اور شدید عدم استحکام” کی وجہ قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ”جان بوجھ کر شہری جہازوں اور بحریہ کے جہازوں کو نشانہ بنانے کا کوئی قانونی جواز نہیں۔”

وائٹ ہاؤس کی طرف سے بدھ کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ”ہمارا پیغام اب واضح ہے۔ ہم ان غیر قانونی حملوں کو فوری طور پر ختم کرنے اور غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے جہازوں اور عملے کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔”

اس میں مزید کہا گیا: ”اگر وہ خطے کی اہم آبی گزرگاہوں میں زندگیوں، عالمی معیشت اور تجارت کے آزاد بہاؤ کو خطرہ پہنچاتے رہے، تو حوثی باغیوں کو اس کے نتائج کی ذمہ داری اٹھانی پڑے گی۔”

اس تنبیہ آمیز بیان کے وسیع طور پر یہ معنی اخذ کیے جا رہے ہیں کہ اگر حوثی باغیوں نے حملے بند نہ کیے تو، یہ اتحاد یمن میں ان کے ان اہداف کے خلاف فوجی کارروائی کر سکتا ہے، جس میں وہ جگہیں بھی شامل ہوں گی جہاں میزائلوں کو رکھا گیا ہے۔

مغربی ممالک کے اتحادیوں نے ان حملوں کو ”فوری طور پر ختم” کرنے کا مطالبہ کیا، جو ان کے بقول، اہم آبی گزرگاہ میں ”بحری جہاز رانی کی آزادی کے لیے براہ راست خطرہ ہیں۔” بحیرہ احمر سے عالمی تجارت کا تقریباً 15 فیصد سامان گزرتا ہے۔

خدشہ یہ ہے کہ اگر یہ حملے جاری رہے تو اس سے ایندھن کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور اہم اشیاء کی سپلائی چین بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔

انٹرنیشنل چیمبر آف شپنگ کا کہنا ہے کہ دنیا کے 20 فیصد کنٹینر بحری جہاز اب بحیرہ احمر سے نکلنے سے گریز کر رہے ہیں اور اس کے بدلے جنوبی افریقہ کی طرف سے طویل راستہ طے کرنے پر مجبور ہیں۔

اقوام متحدہ میں بحث

بدھ کے روز ہی حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر میں ایک اور تجارتی بحری جہاز پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ گروپ نے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا، ”یمنی مسلح افواج کی بحری افواج نے سی ایم اے سی جی ایم اے نامی بحری جہاز کو نشانہ بنایا جو کہ مقبوضہ فلسطین کی بندرگاہوں کی جانب سفر کر رہا تھا۔

لیکن سی ایم اے سی جی ایم کے ایک ترجمان نے بتایا کہ یہ جہاز مصر کی طرف جا رہا تھا۔

بدھ کی شام کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی اسی معاملے پر ہونے والے ایک مباحثے میں بھی حوثی باغیوں کے حملوں کی متفقہ طور پر مذمت کی گئی۔ لیکن اس کشیدگی میں مزید اضافہ کرنے کے خلاف تنبیہ بھی جاری کی گئی۔

اقوام متحدہ میں ایک امریکی سفیر کرس لو نے کہا کہ ان حملوں سے ”بحری سلامتی، بین الاقوامی جہاز رانی اور تجارت پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔”

انہوں نے اس کا الزام ایران پر عائد کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایران کا کردار ”مسائل کی جڑ” ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”ایران نے طویل عرصے سے حوثیوں کے ذریعے ان حملوں کو فعال رکھا ہے۔”

تاہم ایران ایسے حملوں کی حمایت سے انکار کرتا ہے۔ البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ اگر اس کے یمنی اتحادیوں کے خلاف مغربی ممالک نے فضائی حملے شروع کیے، تو اس کا رد عمل کیا ہو گا۔

حوثی آبنائے باب المندب سے گزرنے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، جو آنسوؤں کے دروازے کے نام سے بھی معروف ہے۔ یہ 20 میل یعنی 32 کلومیٹر چوڑا ایک چینل ہے، جہاں نیویگیشن کا عمل بھی ایک خطرناک کام جانا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں