کربلا والوں کی مرثیہ گوئی سے امر ہونے والے (سید صفدر رضا)

برصغیر کی سرزمین کو یہ شرف حاصل ہے کہ مرثیہ گو شعراء نے کربلا کی تاریخ کو اپنے الفاظوں میں اس انداز میں عکسبند کیا ہے کہ امام عالی مقام حسین علیہ السلام، اپکےصحابہ اکرام اور آپ کے اہلبیت علیہ السّلام پر یزیدی لشکر کی سختیاں، ڈھائے جانے والے ظلم و جور کا بتانا اور جنگ و جدل کی ایسی تصویر کشی پیش کی ہے کہ سننے والے کی آنکھوں میں کربلا کے مناظر سامنے آجاتے ہیں اور خود بخود اشک جاری ہوجاتے ہیں۔ آٹھارویں صدی عیسوی کے اوائل میں بیک وقت دو بلند پایہ شعرا اکرام نے جنم لیا۔ 29 اگست 1803 میں مرزا غلام حسین کے گھر دہلی میں جنم لینے والی شخصیت محترم مرزا سلامت علی نے عربی اور ایران کا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے فارسی پر عبور حاصل کیا۔ گھریلو ماحول ادبی ہونے کی وجہ سے 15 سولہ سال کی عمر میں ہی مرثیہ گوئی شروع کردی تھی۔جب پچاس کی دہائی میں میر انیس لکھنئو آئے تو دونوں میں مشترکہ مرثیہ کی صنف کی وجہ سے خوب دوستی ہو گئی۔بلکہ ایک دوسرے سے کلام میں برتری حاصل کرنے کے لئے مقابلے کی فضاء برقرار رہنے لگی۔اپکی مرثیہ گوئی میں مرثیوں کی طوالت کئی سو بندوں پر مشتمل ہوتی۔کسی بھی محفل یا مجلس میں پورا مرثیہ پیش کرنا یا عزاداروں کا سننا نا ممکن تھا۔لیکن میدان جنگ میں اہلبیت حسین علیہ السلام اور اصحاب کی جنگ کی ایسی عکاسی فرماتے کہ گویا سننے والا خود کربلا میں موجود ہو۔ آپ کے استاد محترم مظفر حسین ضمیر بھی مرثیہ گوئی فرماتے تھے۔ مگر جو شہرت آپکے حصہ میں آئی یقیناً آپکے استاد کی روح خوش ہوتی ہوگی۔ عمر کے آخری سال بینائی کی کمزوری اور عارضہ کی وجہ سے علاج کی غرض سے نواب واجد علیشاہ کی دعوت پر کلکتہ تشریف لے گئے۔دبیر کا تخلص رکھنے والے عظیم مرثیہ گو نے بعد ازاں 71 سال کی عمر میں لکھنئو میں وفات پائی۔ آپ کا بغیر نکتہ کا مرثیہ لکھنا آپ ہی کا کارنامہ ہے جبکہ دوسری طرف حضرت عباس علمدار علیہ السلام کی شان اور بہادری کا عکاس مرثیہ

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
شمشیر بہ کف دیکھ کے حیدر کے پسر کو
جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو

مرزا دبیر کے ہی ہمعصر اور ہم صنف شاعر 1803 میں میر مستحسن خلیق کے پیدا ہونے والے میر ببر علی انیس کا تعلق اہل سادات سے تھا۔ آپ کی پیدائش فیض اباد ۔یں ہوئی۔ آپ نے فنون حرب یعنی گھڑسواری، سپہ گری کی مہارت حاصل کر رکھی تھی۔ بر صغیر کے ادبی گھرانوں میں عربی فارسی کارواج عام تھا مگر آپ کو اردو پر بھی خاصہ ملکہ حاصل تھا۔اپ نے والد کے حکم پر شاعری کی دیگر اصناف کو ترک کرکے اپنی بھرپور توجہ مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی پر مرکوز فرمائی۔ آپکا گھریلو ماحول اد بی ہونے کی وجہ ادب میں رغبت فطری عمل تھا اور سادات گھرانے میں آپکا ادبی ذوق پروان چڑھا۔مفتی حیدر عباس اور مولوی حیدر علی سے فارسی اور عربی میں استفادہ حاصل کیا جبکہ اشعار کی اصلاح آپکے والد فرمایا کرتے تھے۔ آپ لکھنؤ تشریف لائے جہاں آپکی دوستی مرثیہ گوئی کے ماہر دلدادہ مرزا دبیر سے ہوئی۔ آپکی مرثیہ گوئی میں لکھنؤ کی عزاداری کے ماحول میں اس وقت مزید تاثیر پیدا ہوئی جب آپ مرثیہ خوانی بھی کرنے لگے۔ آپ تحت اللفظ میں مرثیہ خوانی فرماتے تھے۔اپ نے مرثیہ گوئی کو بام عروج پر پہنچایا برصغیر میں مرثیہ گوئی کو جو فروغ آپ اور آپکے ہمعصر مرزا دبیر کے عہد میں ملا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ حتیٰ ہندو شعراء نے بھی آپکی تقلید میں اپنی شاعری کو کربلا کے ذکر سے آراستہ کیا۔ میر انیس نے صرف و نحو، محاورات اور تراکیب و بندشیں ایسے استعمال کیں کہ وہ آپ کے کلام کو معجزاتی رنگ دیتی ہیں۔ انیسویں صدی کے وسط میں ایک اور مرثیہ گو سامنے ائے۔ یعنی محترم قیصر بارہوی جنھوں نے عہد حاضر میں شاعری کی اس صنف کو اپناتے ہوئے جاری رکھا ہے۔

میر انیس اور مرزا دبیر کے ایک صدی بعد پیدا ہو نے والے جناب سید قیصر عباس زیدی جو قیصر بارہوی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سید وزارت حسین زیدی سے حاصل کی۔آپ، میر انیس اور مرزا دبیر میں ایک بات مشترک ہے کہ اپکی شاعری میں لکھنؤ کا خاص عمل دخل اور خاص جھلک دکھائی دیتی ہے۔ محترم قیصر بارہوی دس گیارہ سال کی عمر میں یعنی بچپن میں ہی لکھنؤ اگئے۔ اور گیارہ بارہ سال لکھنؤ میں رہے جہاں کا اثر واضح دیکھا جاسکتا ہے۔اپ کا
تحت اللفظ میں مرثیہ پڑھنے کا انداز منفرد تھا۔ اپکے مرثیے بھی کافی کافی بندوں پر مشتمل ہیں۔ آپ نے ملازمت کے سلسلے میں پاکستان اور لاہور میں سکونت اختیار کی لاہور بھی ادب کا مرکز تھا۔ اپکے مرثیوں کے مجموعے عہد شباب میں شائع ہونے اور مرثیہ گوئی میں عہد حاضر میں بلند مقام پایا۔انکی کتب میں عظیم مرثیئے، موج شہر ،شباب، فطرت قابل ذکر ہیں۔ یہ تو سب مسلم شعراء تھے۔ خصوصی طور پر میر انیس، قیصر بارہوی کا تعلق سادات سے تھا۔ مگرچھنو لال دلگیر ایک ہندو شاعر گزرے ہیں۔ شاید بہت سے اس نام سے واقف بھی نہ ہوں مگر ان کاپیش کیا جانے والے کلام سے پاکستان کا کوئی عزادار نہیں جو واقف نہ ہو۔ چھنو لال دلگیر نے میدان جنگ کی بجائے ایسے منظر کو بیان کیا ہے کہ اس کے مقابلے میں پیش کیا جانے والا کلام آج تک اس کا مقابلہ نہیں کر پایا۔ آپ کو کربلا کے شہیدوں سے ایسی محبت اور انسیت تھی کہ ان کی امام حسین علیہ السلام اور انکے رفقا سے عقیدت و احترام کا یہ عالم تھا کہ ہندو ہونے کا گمان تک نہیں ہوتا۔ ان کی کربلا سے عقیدت کی وجہ آپکے بڑے بھائی کی امام حسین علیہ السلام سے عقیدت تھی۔ اپنے بھائی سے متاثر ہونے کی وجہ سے غزل گوئی ترک کر کے کربلا کے شہیدوں سے اظہار مودت کرتے ہوئے کربلا سے وابستہ شاعری کو اپنا شعار بنا لیا اس عقیدت کے سفر میں اتنا آگے نکل گئے جس کا اجر سیدالشہدا اور جناب سیدہ نے ایسے دیا کہ عاشورہ کی اجڑی شام کے سلام کے بغیر شاید ہی شام غریباں کا پرسہ مکمل ہوتا ہواس سلام میں انیسویں صدی کی پچاس کی دہائی میں ناصر جہاں نے منفرد انداز میں پڑھ کر روح ڈال دی آج بھی شام غریباں کی مجلس اس کے بغیر نامکمل سمجھیں جاتی ہے۔ ناصر جہاں کی وفات کے بعد اب اس سلام کو پڑھنے کی ذمہ داری اسد جہاں نے سنبھالی ہے۔ اپنے والد ناصر جہاں کی طرز میں پڑھ کر یہ سلام شام غریباں میں ھدیہء عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔جو کلام پڑھنے کا سلسلہ لکھنؤ میں شروع ہوا تھا۔اس کو عقیدتوں کی بلندیوں تک پہنچانے میں ناصر جہاں کا حصہ شامل ہے۔ چھنو لال دلگیر اور ناصر جہاں نے جس عقیدت کا اظہار کیا شاید یہ مرتبہ کسی اور کو مل پائیے۔اس کلام اور پڑھنے کے مخصوص انداز نے لکھنے اور پڑھنے والے دونوں کو امر کر دیا کہ
گھبرائے گی زینب
بھیا تمہیں گھر جا کے کہا پائے گی زینب
پھٹ جائے گا بس دیکھتے ہی گھر کو کلیجہ
یاد آؤ گے بھیا
دل ڈھونڈے گا تم کو تو کہاں پائے گی زینب
گھبرائے گی زینب

اپنا تبصرہ بھیجیں