پیرس حملے میں ملوث تحریک لبیک پاکستان سے متاثر تھا، فرانسیسی حکام

پیرس (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) فرانسیسی حکام نے صوبہ پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدین سے تعلق رکھنے والے مرکزی ملزم ظہیر حسن محمود پر ‘اقدام دہشت گردی‘ کی فرد جرم عائد کر دی ہے۔

حکومتِ فرانس نے پیرس حملے کو ‘اسلامی انتہاپسندی‘ کا واقعہ قرار دیا ہے۔ یہ حملہ جمعہ پچیس ستمبر کو پیرس میں شارلی ایبدو میگزین کے سابقہ دفاتر کے سامنے پیش آیا۔ اس واقعے میں ملزم نے گوشت کاٹنے والے آلے چاپڑ سے لوگوں پر حملہ کیا اور دو افراد کو زخمی کر دیا۔

اپنے بیان میں پاکستانی حملہ آور علی حسن نے کہا کہ اُس نے شارلی ایبدو میگزین کی طرف سے پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکے دوبارہ شائع کرنے کے بعد غصے میں آ کر یہ اقدام اٹھایا۔

فرانسیسی حکام کے مطابق حملہ آور نے پہلے انہیں اپنا نام حسن علی اور عمر اٹھارہ سال بتائی تھی لیکن اس کے پاسپورٹ کے مطابق اس کا اصل نام ظہیر حسن محمود اور عمر پچیس سال ہے۔

خادم رضوی اور الیاس قادری سے متاثر

فرانس کے انسداد دہشت گردی کے پراسیکیوٹر ژوں فراں سوئے ریکاخ کا کہنا ہے کہ حملہ آور کے قریبی جاننے والوں سے پتہ چلا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں وہ ناموسِ رسالت پر پاکستان کی تحریک لبیک کے سربراہ مولوی خادم حسین رضوی کے جلسوں اور تقاریر کی ویڈیوز دیکھ کر متاثر ہوا۔

فرانسیسی حکام کے مطابق ملزم نے جمعے کی صبح حملے سے پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا۔ تین منٹ کی اس ویڈیو میں ملزم نے اردو میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ شارلی ایبدو میگزین کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خاکوں کی دوبارہ اشاعت پر ‘مزاحمت‘ کرنے جا رہا ہے۔

اس ویڈیو میں ملزم نے اپنا یہ عمل ”تمام علمائے سنت اور بالخصوص اپنے پیر و مرشد الیاس قادری‘‘ کی نذر کرنے کا بھی اعلان کیا۔

پاکستان میں ناقدین کا الزام ہے کہ پچھلے چند برسوں میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک تقسیم کرنے کے لیے  متعارف کرایا گیا۔ سیاسی جماعتوں کے بقول اس پارٹی کو ریاستی اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔

نشانے پر شارلی ایبدو تھا

فرانسیسی حکام کے مطابق حملہ آور شارلی ایبدو کے دفتر میں داخل ہو کر لوگوں کو قتل کرنا چاہتا تھا تاہم اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ میگزین کا دفتر کافی عرصہ پہلے وہاں سے منتقل ہو چکا ہے۔ تفتیش کاروں کے مطابق وہ میگزین کے سابقہ دفتر کے باہر یہ سمجھ کر لوگوں پر حملہ آور ہوا کہ شاید وہ شارلی ایبدو کے لیے کام کرتے ہیں۔

تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ جمعے کی واردات سے قبل ظہیر حسن پولیس یا انٹیلیجنس حکام کی نظروں میں نہیں تھا اور نہ ہی اس سے پہلے اس کے خلاف مذہبی شدت پسندی میں ملوث ہونے کی کوئی شکایت تھی۔

فرانسیسی حکام کے مطابق وہ 2018 میں جعلی دستاویزات پر فرانس پہنچا اور اس نے خود کو اٹھارہ سال سے کم عمر کا ظاہر کر کے حکومت سے سرکاری امداد کے لیے رجوع کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں