افغانستان: جنگ میں شدت، لوگ گھر چھوڑنے پر مجبور

کابل (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے/اے ایف پی/اے پی) امریکی افواج کے انخلاء شروع ہو جانے کے بعد افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند میں حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان زبردست جنگ چھڑ گئی ہے۔

افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند میں حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان زبردست جنگ چھڑجانے کی وجہ سے ہزارو ں افغان شہری جان بچانے کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

افغان سرکاری عہدیداروں نے منگل کے روز بتا یا کہ ہلمند صوبے میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران حکومتی فورسز نے ان معتدد چیک پوائنٹس پر انتہا پسندوں کے حملوں کو ناکام بنا دیا ہے جنہیں امریکی فوج نے اتوار کے روز حکومتی فورسز کے سپرد کیا تھا۔ امریکی فوج نے یکم مئی سے افغانستان سے بقیہ فوجیوں کا انخلاء شروع کر دیا ہے۔

ہلمند خطے میں پناہ گزینوں کے امور کے ڈائریکٹر سید محمد رامین نے بتایا کہ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ کے نواح میں جنگ شروع ہوجانے کے بعد سے اب تک ایک ہزار سے زائد کنبے اپنا گھر چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔ ان لوگوں نے لشکر گاہ میں پناہ لے رکھی ہے اور یہ ان علاقوں سے آئے ہیں جہاں پچھلے دو دنوں سے شدید جنگ جاری ہے۔

رامین نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتا یا” ہم ان کی ضروریات کا اندازہ لگا رہے ہیں تاہم اب بھی بہت سے لوگوں کو شہر میں پناہ گاہ نہیں مل سکی ہے اور انہیں فوری امداد کی سخت ضرورت ہے۔”

جنگ میں شدت

افغانستان وزارت دفاع نے دعوی کیا ہے کہ پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران لشکر گاہ کے نواحی علاقوں میں بعض چیک پوائنٹس پر حملہ کرنے والے ایک سو سے زیادہ طالبان جنگجو مارے گئے ہیں۔ وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان سے آنے والے القاعدہ کے دیگر بائیس جنگجو بھی جنگ کے دوران ہلاک ہو گئے۔

حکام کا کہنا ہے کہ طالبان جنگجوؤں نے ابتدا میں بعض چیک پوائنٹس پر قبضہ کر لیا تھا لیکن حکومتی فورسز نے انہیں پیچھے دھکیل کر دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ طالبان جنگجوؤں نے ابتدا میں بعض چیک پوائنٹس پر قبضہ کر لیا تھا لیکن حکومتی فورسز نے انہیں پیچھے دھکیل کر دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔

ہلمند صوبائی کونسل کے سربراہ عطاء اللہ افغان نے اے ایف پی کو بتا یا”دشمنو ں نے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا اسے گنوا چکے ہیں، انہیں بھاری جانی نقصان اٹھا نا پڑا ہے۔”

دوسری طرف طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے جنگ کے دوران درجنوں افغان فوجیوں کو مار دیا ہے۔ دونوں ہی فریق ایک دوسرے کی ہلاکتوں کو اکثر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے رہے ہیں۔

پور ے ملک میں تشدد میں اضافہ

افغانستان سے یکم مئی سے بقیہ امریکی فوجیوں کی واپسی شروع ہونے کے بعد سے دیگر علاقوں میں بھی لڑائی کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔

افغانستان میں ہنگامی خدمات کے کوارڈینیٹر مارکو پونٹین نے کہا کہ صرف ہلمند میں ہی لڑائی نہیں ہورہی ہے بلکہ”ہم پورے افغانستان میں ہی تشدد میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔”

امریکا نے افغان حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان جاری جنگ کی شدت کو کم کرکے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

امریکی وزارت دفاع کے ترجمان جان کربی نے پیر کے روز واشنگٹن میں کہا”ہم نے کچھ ایسا نہیں دیکھا ہے جس سے فوجیو ں کا انخلاء متاثر ہو یا افغانستان میں ہمارے مشن پر کوئی خاص اثر پڑے۔”

کابل میں بم دھماکہ

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں بدھ کی صبح طبی عملے کو لے جانے والی ایک منی بس کو ہدف بنا کر بم حملہ کیا گیا، جس میں ایک شخص کی موت ہو گئی۔

کابل پولیس کے ترجمان فردوس فرامرز نے بتایا کہ اس حملے میں تین طبی اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ یہ بس ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبی عملے کو لے کر کابل سے پنج شیر صوبہ جارہی تھی کہ کلا کان ضلع میں اس پر حملہ کر دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ فوری طورپر کسی نے اس حملے کی ذمہ داری نہیں لی ہے اور پولیس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔

تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد حکومتی فورسز کو غیریقینی مستقبل اور آنے والے چند ہفتوں کے دوران ہی انتہائی خراب نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں