یوکرین کے ساتھ امن مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، روس

ماسکو (ڈیلی اردو/ وی او اے) روس نے بدھ کے روز کہا ہے کہ یوکرین کے ساتھ امن مذاکرات میں ابھی تک کسی پیش رفت کا کوئی عندیہ نہیں ملا۔

منگل کو استنبول میں مذاکرات کے آغاز پر یوکرین نے مطالبات کی ایک فہرست پیش کی تھی، جس کا مقصد 36 روز سے جاری لڑائی کو بند کرانا تھا۔ یہ بات کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ایک اخباری بریفنگ کے دوران بتائی۔

یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی کے ایک مشیر نے بتایا کہ فریقین نے ممکنہ جنگ بندی کی شرائط پر گفتگو کی، ساتھ ہی یوکرین کے لیے سلامتی کی بین الاقوامی ضمانتوں کا سوال اٹھایا جسے منگل کی نشست کے دوران سامنے لایا گیا تھا۔

یوکرین کے مذاکرات کاروں نے یہ تجویز بھی دی کہ ضمانتوں کے بدلے کیف غیر جانبدار حیثیت اختیار کرے گا، جیسا کہ نیٹو یا کسی دیگر فوجی اتحادوں میں شمولیت اختیار نہ کرنا۔

پیسکوف نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ روس اس چیز کا خیرمقدم کرتا ہے کہ کیف نے اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کیے ہیں، لیکن کہا کہ روس نے ان کی جانب سے بہتری کے لیے کوئی قدم اٹھتا ہوا نہیں دیکھا، جس کی بنیاد پر کوئی حتمی سمجھوتہ کیا جاسکے۔

دریں اثنا، یوکرین کے مقامی اہل کاروں نے کہا ہے کہ روسی افواج نے دارالحکومت کیف کے مضافات اور شمالی شہر چرنخیف میں گولہ باری جاری رکھی ہوئی ہے، حالانکہ روس نے وعدہ کیا تھا کہ خیرسگالی کے طور پر وہ ان مقامات پر فوجی حملوں میں کمی لائیں گے۔

اس سے قبل بدھ ہی کے روز یوکرین کی نائب وزیر اعظم یرینا ویریشک نے اعلان کیا کہ دونوں فریقوں نے انخلا کے لیے تین راہداریاں کھولنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

ویریشک نے کہا کہ ایک راہداری ماریوپول کے محصور شہر سے انخلا کے لیے اور بردیانسک کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رسد پہنچانے کے لیے قائم کی جائے گی، جو ماریوپول کے جنوب میں تقریباً 84 میل کے مقام پر واقع ہے، دوسری راہداری میلی ٹوپول کے شہر سے انخلا اور انسانی ہمدردی کی اشیا کی رسد پہنچانے کے لیے، جب کہ تیسری راہداری ارہودار سے زیپورنزیا جانے والے افراد کی سفری سہولت کے لیے کھولی جائے گی۔

مہاجرین سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ، فلپو گرانڈی نے بدھ کے روز کہا ہے کہ یوکرین کے متاثرہ علاقوں سے، بقول ان کے، اس ”بے مقصد لڑائی”کے نتیجے میں جان بچا کر نکلنے والے افراد کی تعداد بڑھ کر 40 لاکھ ہوگئی ہے۔

عالمی ادارے نے بتایا ہے کہ اس تعداد میں سے نصف پولینڈ کی جانب جا چکی ہے۔

برطانیہ کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ یوکرین میں لڑنے والے روسی فوج کے دستوں کو روس اور بیلاروس واپس جانے پر مجبور کیا گیا ہے تاکہ وہ پھر سے تازہ دم ہو کر اور نئی رسد کے ساتھ واپس آئیں، چونکہ یوکرین کی افواج سے لڑائی کے دوران انھیں شدید جانی نقصان ہوا ہے۔

وزارت نے بدھ کو انٹیلی جنس کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ یہ اضافی کام روس پر دباؤ کا باعث بن رہا ہے۔ رپورٹ میں ان مشکلات کا بھی تذکرہ ہے جو روسی افواج کو یوکرین میں جنگ کے دوران پیش آرہی ہیں۔

اس سے ایک ہی روز قبل روسی وزیر دفاع سرگئی شوگو نے اعلان کیا تھا کہ روسی افواج یوکرین کے جنوب مشرقی علاقے، ڈونباس پر توجہ مرکوز رکھیں گی، جس میں روس کے کنٹرول والے علاقے لہانسک اور ڈونیسک شامل ہیں۔ شوگو نے دعویٰ کیا کہ حکمت عملی میں یہ تبدیلی اس لیے کی جارہی ہے چونکہ روس نے ”اسپیشل ملٹری آپریشن” کے پہلے مرحلے میں زیادہ تر اہداف حاصل کر لیے ہیں، جن میں یوکرین کی فوجی استعداد کو کم کرناشامل ہے۔

ادھر، امریکی محکمہ خارجہ نے منگل کے روز ایک نیا سفری ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس میں امریکی شہریوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر ملک سے باہر نکل جائیں۔ اس ایڈوائزری میں کئی باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ روس کے سیکیورٹی اہل کار امریکی شہریوں کو ہراساں کرسکتے ہیں، انہیں گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے”، اس ساتھ روس میں آنے اور جانے والی پروازوں کو محدود کرنا اورامریکی شہریوں کو مدد فراہم کرنے لیے ملک میں موجود امریکی سفارت خانے کی استعداد میں کمی کا معاملہ بھی شامل ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے روس کے لیے ”لیول 4” کی درجہ بندی کی ہے، جس کا مطلب ملک کا”سفر نہ کرنے” کی تلقین کی سطح ہے،یہ ہدایت نامہ 24 فروری کو یوکرین پر حملے کے بعد جاری کیا گیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں