بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں مذہبی گروہوں میں تصادم، پولیس اہلکار سمیت 9 افراد زخمی

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) ابھی انڈیا کے مختلف حصوں میں ہندو مسلم مذہبی کشیدگی کی فضا تھمی نہیں تھی کہ دارالحکومت دلی کے شمال مغربی مسلم اکثریتی علاقے جہانگیر پوری میں تشدد اور ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔

انڈیا کی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق ہنگامے اور تشدد کا یہ واقعہ سنیچر کے روز ہندوؤں کے بھگوان ہنومان کی یوم پیدائش کے جلوس کے دوران اس وقت ہوا جب جلوس پر پتھراؤ کیا گیا۔

پولیس کے مطابق جلوس پر پتھراؤ کرنے والے 14 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے تاہم پولیس نے ان کی شناخت ظاہر نہیں کی۔

پولیس کے مطابق اس ہنگامے میں پولیس اہلکاروں سمیت نو افراد زخمی ہوئے ہیں اور مشتعل مظاہرین نے چند گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے اطلاع دی ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے دلی پولیس کے اعلیٰ حکام سے بات کرنے کے بعد ضروری اقدامات کرنے کی ہدایات دی ہیں۔

نئی دہلی کے پولیس کمشنر راکیش استھانہ کا کہنا ہے کہ حالات اب قابو میں ہیں اور موقع پر اضافی فورسز تعینات کر دی گئی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’اس کے ساتھ دلی کے تمام حساس علاقوں میں اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔ دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ ہم ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔‘

پولیس کمشنر نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینیئر افسران کو فیلڈ میں رہنے اور امن و امان برقرار رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

انھوں نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ افواہوں اور جھوٹی خبروں پر دھیان نہ دیں۔

دلی کے وزیراعلیٰ کی اپیل

دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے لوگوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’جہانگیر پوری میں جلوس پر پتھراؤ کا واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ تمام لوگوں سے اپیل ہے کہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر امن برقرار رکھیں۔‘

میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا کہ ’میں لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ انھیں امن برقرار رکھنا ہو گا کیونکہ اس کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ دلی میں ایجنسیوں، پولیس اور مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے تو پھر دلی میں مرکزی حکومت امن قائم رکھے۔‘

پرامن ماحول بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں

دلی میں لا اینڈ آرڈر کے خصوصی پولیس کمشنر دیپیندر پاٹھک نے جہانگیر پوری میں رہنے والے لوگوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ حالات پر قابو پانے کے لیے اضافی پولیس فورس تعینات ہے۔ انھوں نے کہا کہ جلوس کے دوران دو گروپوں میں تصادم ہوا اور معاملے کی تحقیقات جاری ہے۔

دیپندر پاٹھک نے بتایا کہ زخمیوں کا اندازہ لگایا جا رہا ہے اور لوگوں سے بات کر کے پر امن ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ایک پولیس افسر نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ ’یہ ایک روایتی جلوس تھا اور پولیس اہلکار بھی جلوس کے ساتھ تھے۔ کشال سنیما کے قریب پہنچتے ہی دونوں برادریوں کے درمیان تصادم شروع ہو گیا اور وہاں موجود پولیس اہلکار بھی زخمی ہو گئے۔‘

اس معاملے میں مختلف پارٹیوں کے لیڈروں کا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ بی جے پی ایم پی منوج تیواری نے قصورواروں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے دلی کانگریس نے لوگوں سے امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر منافرت بھرے پیغامات کی بھرمار دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ دلی میں سنہ 1984 کے بعد سے کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا لیکن امت شاہ کو ملک کا وزیر داخلہ بنے ابھی تین سال ہوئے ہیں اور دلی میں دو بار فسادات ہو چکے ہیں۔

اس سے قبل انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش میں دس اپریل کو ہندو تہوار رام نوامی پر پھوٹنے والے فسادات کے بعد وہاں متعدد مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں کو مسمار کیا گیا۔

انڈیا کے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے متعدد پریشان کن تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں جس میں بڑے بڑے پیلے رنگ کے بلڈوزر گھروں کو مسمار کر رہے ہیں اور ان گھروں کے مکین بے بسی سے نم آنکھوں کے ساتھ یہ سب کچھ کھڑے دیکھ رہے ہیں۔

ان واقعات اور تصاویر نے انڈیا میں غم و غصے کی بحث کو جنم دیا ہے اور ناقدین اسے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت بی جے پی، جو مدھیہ پردیش میں بھی برسراقتدار ہے، کی طرف سے انڈیا کے 200 ملین مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

حزب اختلاف کی 13 پارٹیوں کا مشترکہ بیان

دریں اثنا انڈین میڈیا کے مطابق حزب اختلاف کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں انڈیا میں نفرت انگیز تقاریر کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس طرح کے بیانات دینے والوں کو ’سرکاری سرپرستی حاصل ہے‘ اور ان کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔

اس پر دستخط کرنے والوں میں حزب اختلاف کی 13 پارٹیوں کے سربراہان شامل ہیں جن میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے علاوہ ترنمول کانگریس کی رہنما اور مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی اور جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ قابل ذکر ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ کھانے، پینے، لباس، عقائد، تہوار اور زبان وغیرہ کی بنیاد پر حکمراں جماعت کی جانب سے دانستہ طور پر معاشرے میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے ایسے ماحول میں وزیر اعظم کی خاموشی پر سوالات اٹھائے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں