کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی فائر بندی کا اعلان، مقاصد کیا ہیں؟

پشاور (ڈیلی اردو/ٹی این این) کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے مزید پانچ دنوں کیلئے سیزفائر کا اعلان کر دیا، تحریک طالبان پاکستان کے ذمہ دار ذرائع نے سوشل میڈٰیا پر جاری ایک خط کی تائید کرتے ہوئے ہر علاقہ کے ذمہ داران کو اطلاع دی ہے کہ عیدالفطر کیلئے دس دن کی فائربندی میں مزید پانچ دن کی توسیع کر دی گئی ہے۔

دفاعی امور کے تجزیہ کار فائربندی کے پیچھے محرک مذاکرات کے جاری عمل کو سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان کے ملٹری آفیشلز بھی ان مذاکرات کو دوام دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن نئی حکومت نے مذاکرات کے حوالے سے کوئی نئی پالیسی مرتب نہیں کی ہے۔

اس سے پہلے بھی ٹی ٹی پی نے رمضان کی 29ویں سے شوال کی دسویں تاریخ تک فائربندی کا اعلان کیا تھا جبکہ اب جاری کردہ خط میں مزید پانچ دن کی توسیع کر کے 16 مئی کو نئی پالیسی اعلان کرنے کا کہا گیا ہے۔

سینئر صحافی و تجزیہ کار حق نواز خان سمجھتے ہیں کہ طالبان کی جانب سے مسلسل فائربندی کے اعلانات کے پیچھے مقصد امن کی جانب راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے مگر انہیں یہ نہیں معلوم کہ مذاکرات کس سطح پر ہو رہے ہیں۔

حق نواز نے طالبان کے ترجمان محمد خراسانی کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے سیزفائر میں توسیع کی ہے اور کہا ہے کہ مذاکرات کا دور دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی ایسے خبریں سامنے آئی تھیں کہ افغانستان میں پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے شمالی وزیرستان کے اتمانزئی اور محسود قبیلے کے مشران بھیجے گئے تھے جس کی تائید شمالی وزیرستان کی انتظامیہ نے خود کی تھی مگر ابھی تک ان مذاکرات کے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔

اس سے قبل گزشتہ سال حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کے ذریعے مذاکرات کرنے کا کہا تھا جس کے لئے نومبر اور دسمبر میں سیزفائر کا اعلان کیا گیا تھا مگر بعد میں طالبان کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستانی حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم نہیں کئے جس پر حکومت پاکستان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ طالبان کے کچھ مطالبات ماننے کے قابل نہیں۔

دفاعی امور کے تجزیہ کار بریگیڈئر (ر) سید نذیر مہمند نے کہا ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کامیاب ہونا پاکستانی، افغانی اور باالخصوص قبائلی عوام کی خواہش ہے، کیونکہ ان کے مطابق جنگ نے قبائلی عوام کے مال و جان اور املاک کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔

مذاکرات کی تازہ صورتحال پر دفاعی تجزیہ کار سید نذیر نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ مذاکرات کہاں تک پہنچے ہیں لیکن وہ اتنا بتا سکتے ہیں کہ دونوں اطراف سے مخلصانہ کوششیں جاری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے علاوہ دیگر مسلح تنظمییں ایک چیلنج ہوں گی لیکن اگر ہم افغانستان کی مثال لے لیں تو بالآخر وہاں پر جنگ ختم ہوئی، اسی طرح اگر ادھر بھی ایک فریق کے ساتھ صلح ہو گئی تو دوسرا فریق بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔

مگر سینئر صحافی حق نواز خان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے حملوں میں اس وقت تیزی دیکھنے میں آئی جب گزشتہ سال افغانستان میں طالبان نے حکومت سنبھالی جس پر پاکستانی حکومت کا دعویٰ تھا کہ سرحد سے اُس پار حملوں کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے لیکن افغان حکومت نے ان دعوؤں کی سختی سے تردید کی تھی۔

حق نواز کا کہنا تھا کہ گزشتہ آٹھ نو ماہ میں حملوں کا ہدف پاکستان کی سیکورٹی فورسز رہی ہیں، ان کے مطابق پاکستانی حکومت پارلیمنٹ کی سطح پر ایک واضح پالیسی مرتب کرے تاکہ اس مسئلے کا مستقل حل نکلے ورنہ یہ مسئلہ پاکستان اور بالخصوص قبائلی عوام کیلئے مزید مشکلات کا سبب بنے گا۔

دہشت گردی کے واقعات پر تحقیق کرنے والے ادارے پاکستان انسٹی آف کنفلیکٹ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) نے حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ رواں سال کے پہلے چار ماہ میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا اور اس دوران دہشت گردی کے 97 واقعات ہوئے ہیں جن میں سیکورٹی فورسز کے جوان، عام شہری اور مسلح افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

دوسری جانب پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ، انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے 14 اپریل کو بتایا تھا کہ رواں سال کے پہلے تین ماہ میں مسلح افراد کے خلاف آپریشنوں میں 128 افراد مارے گئے ہیں جبکہ 270 گرفتار ہو چکے ہیں۔

پی آئی سی ایس ایس کے رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ چار ماہ کے 97 واقعات میں سیکورٹی فورسز، عام شہریوں سمیت مسلح 474 افراد مارے گئے ہیں جبکہ 422 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں