عراقی فورسز اور مقتدیٰ الصدر کے حامیوں کے درمیان شدید جھڑپیں، متعدد افراد ہلاک، سینکڑوں زخمی

بغداد (ڈیلی اردو/بی بی سی) عراق کے دارالحکومت بغداد میں گذشتہ رات عراقی سکیورٹی فورسز اور طاقتور شیعہ عالم دین مقتدیٰ الصدر کے حامیوں کے درمیان جاری رہنے والی جھڑپوں میں کم از کم 15 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ مقتدیٰ الصدر کے حامیوں کی جانب سے صدارتی محل پر دھاوا بولنے کے دوران درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

بغداد میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب مقتدیٰ الصدر نے سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا۔

عراق کے نگران وزیر اعظم نے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے جبکہ فوج نے ملک کے مختلف شہروں میں بدامنی کے بعد ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔

بغداد کی گلیوں میں جاری رہنے والی جھڑپوں میں مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور تشدد کے اس حالیہ واقعے میں رات بھر ہوائی فائرنگ سے آسمان روشن رہا۔

سکیورٹی فورسز اور مقتدیٰ الصدر کے حامیوں کے درمیان زیادہ تر جھڑپیں شہر کے گرین زون کے علاقے میں ہوئی۔ اس علاقے میں سرکاری عمارتیں اور غیر ملکی سفارت خانے ہیں۔

ان جھڑپوں کی وجہ سے ہالینڈ سفارت خانے کے عملے کو مجبوراً جرمنی کے سفارت خانہ منتقل ہونا پڑا۔

سیکورٹی حکام کا کہنا ہے کہ جھڑپیں مقتدیٰ الصدر کی حامی عسکری تنظیم امن بریگیڈ اور عراقی فوج کے درمیان ہوئیں۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں چند جنگجوؤں کو آر پی جی سمیت بھاری ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ایران نے تشدد کے اس واقعے کے بعد عراق کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی ہے جبکہ کویت نے اپنے شہریوں سے فوری طور پر عراق چھوڑنے کا کہا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طبی حکام کا کہنا ہے کہ مقتدیٰ الصدر کے 15 حامیوں کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا ہے اور تقریباً 350 مظاہرین زخمی ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ ان واقعات سے پریشان ہیں اور ‘صورتحال کو پرامن کرنے کے لیے فوری اقدامات‘ کا مطالبہ کرتے ہیں۔

عراق کے نگران وزیراعظم اور مقتدیٰ الصدر کے حامی مصطفیٰ الخادمی نے کابینہ اجلاس معطل کر دیے ہیں اور بااثر عالم دین سے درخواست کی ہے کہ وہ تشدد کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

مقتدیٰ الصدر کے ایک سنیئر ساتھی نے بعدازاں عراق کی سرکاری خبر رساں ایجنسی آئی این اے کو بتایا کہ انھوں ( مقتدیٰ الصدر) نے ملک میں تشدد اور ہتھیاروں کا استعمال رکنے تک بھوک ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔

ان کا یہ اعلان سیاست چھوڑنے کے اعلان کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں اور تشدد کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔

انھوں نے سیاست چھوڑنے کے اقدام کا الزام حریف شیعہ رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے عراقی سیاسی نظام میں اصلاحات سے انکار کرنے پر لگایا ہے۔

اکتوبر میں مقتدیٰ الصدر کے حامی امیدواروں نے عراقی پارلیمان کی زیادہ تر نشستیں جیتی تھیں لیکن وہ حکومت بنانے کے لیے مقررہ نشستیں جیتنے میں ناکام رہے تھے۔ جس کے بعد سے انھوں نے ایران کے حمایت یافتہ شعیہ گروہوں سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا تھا اور تقریباً ایک برس سے ملک میں عدم استحکام ہے۔

مقتدیٰ الصدر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ‘میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کروں لیکن اب میں نے مکمل طور پر سیاست چھوڑنے اور تمام (الصدر) تنظمیوں کو بند کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔

تاہم ان کی تحریک سے منسلک چند مذہبی مقامات کھلی رہیں گی۔

48 سالہ مقتدیٰ الصدر گزشتہ دو دہائیوں سے عراق کی ایک اہم عوامی و سیاسی شخصیت رہے ہیں۔ ان کی مہدی آرمی ایک طاقتور ترین ملیشیا کے طور پر ابھری تھی جس نے سابق حکمران صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد امریکی اور اتحادی عراقی افواج کے ساتھ لڑائی لڑی تھی۔

بعدازاں انھوں نے اس ملیشیا کو امن بریگیڈ کے طور پر قائم کیا اور یہ آج بھی عراق کی سب سے بڑی ملیشیا ہے جو اب عراقی فوج کا حصہ ہے۔

اگرچہ مہدی آرمی کا تعلق ایران سے تھا مگر بعد میں مقتدیٰ الصدر نے عراق کے شعیہ ہمسایہ ملک سے خود کو دور کر لیا تھا اور خود کو ایک قوم پرست جو عراق کے داخلی امور میں ایرانی اور امریکی عمل دخل روکنے کے خواہشمند کے طور پر پیش کیا۔

کوآرڈینیشن فریم ورک، وہ حریف شیعہ سیاسی بلاک، جس کے خلاف مقتدیٰ الصدر کا بلاک لڑ رہا ہے، میں بنیادی طور پر ایران کی حمایت یافتہ جماعتیں شامل ہیں۔

کالی پگڑی، سیاہ آنکھوں اور بھاری بھر کم جسامت والے مقتدیٰ الصدر عراق کی ایک معروف شخصیت ہیں جو بے روزگاری، ملک میں بجلی کی مسلسل بندش اور بدعنوانی کے خلاف عام عراقی شہریوں کی آواز بنے۔

وہ ملک کی ان چند شخصیات میں شامل ہیں جو بہت جلدی سے ہزاروں افراد کو سڑکوں پر اکٹھا کر کے لا سکتے ہیں۔

مقتدیٰ الصدر کون ہیں؟

سنہ 2003 میں جب امریکہ نے صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے فوجی حملہ کیا تو اس وقت بیرون ممالک میں شاید کم ہی لوگوں نے ایک نیم تعلیم یافتہ مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر کا نام سنا ہو گا۔

عدم استحکام کے تقریباً 17 برس کے عرصے میں وہ اس وقت عراق کے سب سے زیادہ مشہور رہنما ہیں اور ان کا شمار عراق کے طاقتور، معروف ترین اور با رعب چہرے والے لیکن بہت پیچیدہ رہنماؤں میں ہوتا ہے۔

انقلابی، جوشیلا، آزاد خیال ایک دم سے موڈ بدل لینے والا، یہ سب خصوصیات اس شخص کے بارے میں مشہور ہیں جن کے اقدامات اور موقف اکثر الجھا دینے والے اور متضاد معلوم ہوتے ہیں۔

کئی دھڑوں کے اتحاد پر ان کی سیاسی تحریک ‘سائرون’ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں سب سے بڑا اتحاد بن کر اُبھرا۔ اس کامیابی کے بعد مقتدیٰ الصدر ایک مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے تھے۔

صفِ اول کا بادشاہ گر ہونے کے علاوہ مقتدیٰ الصدر ملک بھر کو ہلا دینے والے موجودہ سیاسی مظاہروں کے پسِ پشت ایک اہم کردار بھی ہیں۔

مقتدیٰ کے والد اور ان کے سُسر آیت اللہ العظمیٰ محمد باقر الصدر کو عراق میں نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ان دونوں نے اپنی اس حیثیت کی بدولت غریب شیعہ آبادی میں سماجی کاموں اور سیاسی رابطوں کی تنظیمیں بنائی ہوئی تھیں۔ اسی وجہ سے یہ دونوں صدام حسین کے غیض و غضب کا شکار ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں