یوکرینی صدر کا روس کے زیر قبضہ 8 ہزار کلومیٹر کا علاقہ دوبارہ حاصل کرنے کا دعویٰ

کیف (ڈیلی اردو/بی بی سی/راوئٹرز) یوکرین کی جانب سے جوابی حملوں نے روسی افواج کو اپنے زیر قبضہ یوکرینی علاقوں سے تیزی سے پسپائی پر مجبور کر دیا ہے۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ یوکرینی افواج نے روسی افواج پر جوابی حملے کرتے ہوئے روس کے قبضے سے مزید علاقہ چھڑا لیا ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق صدر زیلنسکی نے 13 ستمبر کی شام کو جاری اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ یوکرینی افواج نے خارخیو کے خطے میں تقریباً آٹھ ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے کا دوبارہ قبضہ حاصل کر لیا ہے۔

انھوں نے اپنا تمام علاقہ دوبارہ حاصل کرنے کا عزم بھی دہرایا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یوکرین کے صدر نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ روسی افواج کے قبضے سے واپس لیے گئے آدھے سے زیادہ علاقے کو محفوظ بنا دیا گیا ہے اور دیگر حصے میں بحالی اور استحکام کا کام جاری ہے۔

تاہم بی بی سی ان دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

جنوب میں خیرسون کے علاقے میں بھی یوکرینی افواج کے جوابی حملے جاری ہیں جبکہ ملک کے مجموعی رقبے کے پانچویں حصے پر اب بھی روسی افواج کا قبضہ ہے لیکن روسی فوجیوں کی پسپائی کو بہت سے مبصرین یوکرین کی اہم کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ یوکرین نے روسی افواج کو پسپائی پر مجبور کر کے اہم کامیابی حاصل کی ہے تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ جنگ اس وقت ایک اہم موڑ پر ہے۔

دوسری جانب ’آئندہ چند روز‘ میں امریکہ کی جانب سے ممکنہ طور پر یوکرین کے لیے ایک نئی عسکری امداد کا اعلان متوقع ہے جبکہ یوکرین یہ توقع کر رہا ہے کہ روس موسم سرما سے قبل اس کی انرجی انفراسٹرکچر پر حملوں میں تیزی لائے گا۔

روئٹرز کے مطابق یوکرین کی مسلح افواج کے جنرل سٹاف نے کہا ہے کہ یوکرین کی فوج نے مشرقی اور جنوبی یوکرین میں آبادی پر متعدد روسی حملوں کو پسپا کر دیا ہے۔

جنرل سٹاف نے مزید کہا کہ روس نے یوکرین کے شمال، مشرق اور جنوب میں بھی گولہ باری جاری رکھی ہے اور گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران تین میزائل حملے اور 33 فضائی حملے کیے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ روس کو ہر روز اہم نقصان ہو رہا ہے۔

مشرقی علاقے میں روسی افواج کی پسپائی

انسٹیٹیوٹ فار دی سٹڈی آف وار (آئی ایس ڈبلیو) کے مطابق یوکرین کی فوج نے روسی فوج کو ’بھاری شکست‘ سے دوچار کیا ہے۔

روس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس نے ازیوم اور کپیانسک کے اہم شہروں سے اپنی فوج کو نکال لیا ہے۔

ڈونباس کے ان دونوں قصبوں کو روسی فوجی دستوں کے لیے اہم عسکری مراکز سمجھا جاتا تھا۔ دوسری طرف روسی فوج کراماتورسک اور سلوویانسک کی جانب پیش قدمی کی کوشش کر رہے ہیں۔

ازیوم کا قصبہ خصوصی طور پر روس کے دفاعی محاذ کا مضبوط ترین حصہ تھا۔

سوموار کو امریکی سیکرٹری خارجہ انتونی بلنکن کا کہنا تھا کہ یوکرین کی افواج نے جوابی حملوں میں ’اہم کامیابی‘ حاصل کی ہے تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے نتائج کی پیشگوئی کرنا قبل از وقت ہے۔

انتونی بلنکن کا کہنا تھا کہ ’روسی افواج بڑی تعداد میں بھاری اسلحہ اور گولہ بارود کے ساتھ یوکرین میں موجود ہے اور جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے وہ نہ صرف یوکرینی افواج بلکہ شہریوں اور شہری علاقوں کو بھی بلا تفریق نشانہ بنا رہے ہیں۔‘

مشرقی علاقے میں روسی افواج کی پسپائی

انسٹیٹیوٹ فار دی سٹڈی آف وار (آئی ایس ڈبلیو) کے مطابق یوکرین کی فوج نے روسی فوج کو ’بھاری شکست‘ سے دوچار کیا ہے۔

روس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس نے ازیوم اور کپیانسک کے اہم شہروں سے اپنی فوج کو نکال لیا ہے۔

ڈونباس کے ان دونوں قصبوں کو روسی فوجی دستوں کے لیے اہم عسکری مراکز سمجھا جاتا تھا۔ دوسری طرف روسی فوج کراماتورسک اور سلوویانسک کی جانب پیش قدمی کی کوشش کر رہے ہیں۔

ازیوم کا قصبہ خصوصی طور پر روس کے دفاعی محاذ کا مضبوط ترین حصہ تھا۔

سوموار کو امریکی سیکرٹری خارجہ انتونی بلنکن کا کہنا تھا کہ یوکرین کی افواج نے جوابی حملوں میں ’اہم کامیابی‘ حاصل کی ہے تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے نتائج کی پیشگوئی کرنا قبل از وقت ہے۔

انتونی بلنکن کا کہنا تھا کہ ’روسی افواج بڑی تعداد میں بھاری اسلحہ اور گولہ بارود کے ساتھ یوکرین میں موجود ہے اور جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے وہ نہ صرف یوکرینی افواج بلکہ شہریوں اور شہری علاقوں کو بھی بلا تفریق نشانہ بنا رہے ہیں۔‘

رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ (روسی) کے جسٹن برونک نے بی بی سی کو بتایا کہ خارخیو میں روسی چوکیاں ’مکمل طور پر تباہ‘ ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں سے روسی افواج کا انخلا یقینی طور پر اپریل میں کیئو سے پیچھے ہٹنے کے بعد سب سے زیادہ ڈرامائی پسپائی تھی، جو ہم نے دیکھی ہے۔‘

انسٹیٹیوٹ فار دی سٹڈی آف وار کا کہنا ہے کہ اب یوکرین کے پاس تقریباً تمام خارخیو خطے کا قبضہ ہے اور ان کی پیشقدمی سے یہ امکان ختم ہو گیا ہے کہ روس جنگ کے موجودہ مرحلے میں پورے ڈونباس پر قبضہ کر سکتا ہے۔

اس سے قبل روسی حکام نے کہا تھا کہ ان کی افواج ڈونباس کی ’مکمل آزادی‘ کے لیے لڑ رہی ہیں۔

کنگز کالج لندن کے پروفیسر مائیکل کلارک نے بی بی سی کو بتایا کہ روس کی خارخیو میں یوکرینی افواج کی طاقت اور ان کی اپنے فوجی دستوں کو اگلے محاذوں پر بدلنے کی صلاحیت کو کم سمجھنا ’بڑی انٹیلیجنس ناکامی‘ ہے۔

جنوب میں یوکرین کے جوابی حملے

یوکرین کا کہنا ہے کہ اس نے خیرسون کے قریب روسی ٹھکانوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، جس میں روسی نقل و حمل اور رسد کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق یوکرین کی فوج نے حالیہ ہفتوں میں اگلے محاذوں پر روس کے خلاف کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

آئی ایس ڈبلیو کا کہنا ہے کہ اب روسی فوج کو ایک ’نئے اور برے صدمے‘ کا سامنا ہے۔

’مشرق میں مؤثر طریقے سے لڑنے کے لیے وسائل کی کمی کی وجہ سے، انھیں یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا جنوب میں خیرسون سے خارخیو کے قریب محاذ پر دستے بھیجے جائیں یا نہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے شاید وہ خیرسون کے قریب اپنے ٹھکانوں کو کمزور کر لیں اور انھیں شکست کا خطرہ لاحق ہو۔‘

مغربی ممالک سے حاصل ہتھیاروں نے یوکرین کا حوصلہ بڑھایا

صدر زیلنسکی نے حالیہ دنوں میں روس سے حاصل کیے گئے علاقوں پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے مزید فنڈز، ہتھیاروں اور آلات کی اپیل کی ہے۔

یوکرینی افواج بڑی تعداد میں مغربی ممالک سے حاصل ہونے والا اسلحہ استعمال کر رہی ہے۔

جنگ کے آغاز میں یوکرین نے بنیادی طور پر وارسا معاہدے کے جنگی ہتھیاروں کا استعمال کیا، جسے وہ کئی دہائیوں سے استعمال کر رہے تھے لیکن اب بہت سے یونٹس میں نیٹو کے معیاری آلات بشمول توپ خانے اور گولہ بارود کا استعمال کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں